پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں ضلع جنوبی وزیرستان کی تحصیل سراروغہ لنڈا پال شلمنجئی میں آج کے جدید دور میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو بجلی، پانی اور گیس جیسی بنیادی سہولیات کے بغیر غاروں میں زندگی گزار رہے ہیں۔
جنوبی وزیرستان میں غاروں، جنہیں پشتو میں خلوت کہتے ہیں، میں صدیوں سے لوگ بستے آئے ہیں۔ ایک ایسے ہی غار میں رہنے والے 65 سالہ ملک عمر خان اس کی تاریخ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خلوت جنوبی وزیرستان میں تقریباً تین سو سال پرانے بنائے گئے ہیں جب لوگوں میں گھروں کا تصور تک نہیں تھا اور لوگ غربت میں زندگی گزار رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت لوگ جنگلی جانوروں اور موسمی اثرات سے بچنے کے لیے غاروں کے اندر ہی رہتے تھے۔ ملک عمر خان کے مطابق غاروں میں پانی ڈال کر ان کی مٹی کو نرم کیا جاتا تھا اور پھر اس مٹی کے نرم ہونے کے بعد اسے مزید بڑا کرنے کے لیے ہاتھوں سے کھودا جاتا تھا۔ اس پر کافی عرصہ لگتا تھا کیونکہ اس زمانے میں لوگوں کے پاس کوئی مشینیں نہیں تھیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہاں کے لوگ موسم بہار میں شوال کے علاقے چلے جاتے تھے اور وہاں پر عارضی خیمہ بنالیتے تھے کیونکہ یہاں موسم کچھ گرم سا ہو جاتا تھا اور شوال میں موسم کافی خوشگوار ہوتا تھا اور پھر سردیوں کے شروع ہوتے ہی وہ انہیں خلوت میں واپس آجاتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ غار وزیرستان میں تقریباً ہر جگہ پہاڑوں میں آپ کو نظر آئیں گے جو اس پرانے وقت کے لوگوں کی زندگی کی یاد دلاتے ہیں مگر اب بھی کچھ علاقوں میں لوگ انہیں تین سو سال پرانے غاروں میں زندگی گزار رہے ہیں۔
اکثر کا کہنا ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تو انہیں ڈر بھی لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ غار ان کے اہل خانہ پہ ہی نہ گر جائیں کیونکہ اکثر ایسا ہوا ہے کہ مسلسل بارش کی وجہ سے کچھ غاروں کی چھت کی مٹی گر گئی جس سے جانی نقصان بھی ہوا۔
ملک عمر خان نے کہا: 'کیا کریں ہماری مجبوری ہے اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ ہم اپنے لیے گھر نہیں بنا سکتے کیونکہ مزدوری کرتے ہیں، دیہاڑی کرتے ہیں، جو کبھی ملتی ہے اور کبھی نہیں ملتی۔ مشکل سے بیوی بچوں کا پیٹ پالتے ہے۔'
انہوں نے بتایا کہ فوجی آپریشن کے دوران کچھ سال انہوں نے وانہ ہجرت کی جو کہ وزیروں کا علاقہ ہے اور وہاں کافی مشکل سے وقت گزارا۔ 'اب جب اپنے علاقے میں واپسی ہوئی ہے اب بھی اسی خلوت میں زندگی گزار رہے ہیں۔'
ان غاروں میں رہنے والوں کا کہنا ہے فوجی آپریشن سے پہلے یہاں کے کچھ لوگ علاقہ شوال میں اپنے گھروں میں رہتے تھے اور ان کے کاروبار بھی تھے مگر آپریشن کے بعد جب کاروبارِ زندگی مفلوج ہوگیا اور گھر بار بھی تباہ ہوگئے تو کچھ لوگ اب یہاں سراروغہ آکر ان خلوت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان نے جو تباہ شدہ مکانات کی مد میں سروے کے لیے رقم مختص کی ہے وہ اتنی کم ہے کہ اس میں مشکل سے ایک کمرہ بن سکتا ہے جبکہ کاروبار بھی واپس شروع نہیں ہوسکتا۔
خلوت میں رہنے والے لوگوں نے کہا کہ 'جب ہم دیہاڑی کرنے خلوت سے نکلتے ہے تو دل میں یہی خوف ہوتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ خلوت کی چھت گر کر بیوی بچوں کو موت کی نیند نہ سلائے اور جب بارش ہوتی ہے تو ساری رات اسی خوف اور ڈر سے نیند نہیں آتی اور بار بار چھت کو دیکھ کر رات کٹ جاتی ہے۔'