ایک پانچ سالہ برطانوی بچہ اپنی والدہ کی پیدائش کے ریکارڈ میں ترجمے کی معمولی غلطی کی وجہ سے ایک سال سے زیادہ عرصے سے افغانستان میں پھنسا ہوا ہے۔
یوسف شنواری جو آئندہ ماہ اپنی چھٹی سالگرہ منائیں گے، برطانیہ میں موجود اپنے والد سے ملنے سے قاصر ہیں کیونکہ ان کی والدہ کی تاریخ پیدائش کا انگریزی میں غلط ترجمہ کیا گیا تھا، حالانکہ وکلا کا کہنا ہے کہ والدہ کی شناخت بچے کی برطانیہ آمد میں رکاوٹ نہیں ہو سکتی۔
ان کے والد فیاض شنواری برطانوی شہری ہیں، جو 13 سال قبل اپنے خاندان کے ساتھ افغانستان سے فرار ہو کر برطانیہ پہنچے تھے جہاں انہیں تارکین وطن کا درجہ مل گیا تھا۔ فیاض کا کہنا ہے کہ طالبان نے یوسف کو اس لیے اغوا کرنے کی دھمکی دی ہے کیونکہ وہ ایک برطانوی شہری ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سکول جانے سے قاصر ہیں اور تمام وقت گھر میں قید رہتے ہیں۔
بچے کے لیے مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ اس معاملے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہوم آفس ’فرسودہ نظام کی جانب گامزن ہے‘ جہاں غیر سفید فام بچے کو برطانوی شہریت سے محروم رکھا جا رہا ہے اور یہ محکمے کے فیصلہ سازی کے عمل میں ’ادارہ جاتی نسل پرستی‘ کی علامت ہے۔
فیاض شنواری سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کروائیں۔ اس عمل پر گذشتہ سال بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی تھی جب لوگوں کو ڈی این اے ثبوت فراہم کرنے سے انکار کرنے کے بعد غلط طور پر برطانوی شہریت سے محروم کر دیا گیا تھا۔
بچے کے والد نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کے تحفظ کے حوالے سے پریشان ہیں جو اپنی والدہ اور ان کے خاندان کے ساتھ جلال آباد میں مقیم ہے جہاں گذشتہ ایک سال کے دوران شدت پسندوں نے متعدد حملے کیے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’میرا بیٹا خطرے میں ہے۔ دو تین ہفتے قبل اپنی اہلیہ کے ساتھ ویڈیو کال پر میں نے دو بم دھماکوں کی آوازیں سنی تھی۔ کچھ مہینے پہلے بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ 10 منٹ کے اندر اندر تین بم دھماکے ہوئے تھے۔ میں اپنی بیوی اور بیٹے کو وہاں کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟ وہ سکول جانا چاہتا ہے لیکن ہم اسے اجازت نہیں دے سکتے۔ جب بھی میں اس سے بات کرتا ہوں وہ گھر سے باہر جانا اور کھیلنا چاہتا ہے، لیکن کوئی اسے اغوا کر کے مجھ سے رقم کا مطالبہ کر سکتا ہے۔‘
’وہ ایک قیدی کی طرح ہے۔ میری بیوی بھی باہر نہیں نکل پاتی۔ وہ 24 گھنٹے گھر میں قیدیوں کی طرح رہتے ہیں۔ میں انہیں برطانیہ لانا چاہتا ہوں تاکہ وہ میرے ساتھ یہاں رہ سکے اور سکول جا سکے۔ وہ برطانوی شہری ہے اسے میرے ساتھ ہونا چاہیے۔‘
فیاض شنواری ایسسیکس کے رومفورڈ میں منسٹری آف ٹرانسپورٹ کے ٹیسٹر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ وہ خاندان میں ہی اپنی دوست، جنہیں وہ بچپن سے ہی جانتے تھے، سے شادی کرنے کے لیے واپس افغانستان گئے تھے اور اگلے ہی سال یوسف کی پیدائش ہوئی تھی۔
اپنے والد کی برطانوی شہریت کی وجہ سے پیدائشی طور پر برطانوی شہری ہونے کے باوجود یہ بچہ کبھی برطانیہ نہیں پہنچ پایا کیوں کہ اس کے والدین نے اس کے برطانوی پاسپورٹ کے لیے درخواست دینے سے قبل اس کی ماں کو ویزا ملنے تک کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ وہ سب ایک ساتھ برطانیہ منتقل ہوسکیں۔
تاہم فیاض کی اہلیہ کو پہلے افغان پاسپورٹ حاصل کرنا پڑا جو پہلے ہی تاخیر کا شکار تھا اور پھر انہیں برطانیہ جانے کے لیے درکار انگریزی زبان کا امتحان پاس کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔
فیاض شنواری نے بتایا کہ بالآخر انہوں نے 2018 میں یہ امتحان پاس کر لیا لیکن ہوم آفس نے ابھی تک ان کے سرٹیفکیٹ کو مستند تسلیم نہیں کیا۔ اس دعوے کے خلاف جوڑے نے اپیل دائر کر رکھی ہے۔
جب فیاض نے آخرکار 2018 میں اپنے بیٹے کے لیے برطانوی پاسپورٹ کی درخواست دی تو ہوم آفس نے ان کی اہلیہ کی شناختی دستاویزات کا مطالبہ کیا، اس حقیقت کے باوجود کہ اس کی عام طور پر ضرورت نہیں ہوتی۔
ان کی تاریخ پیدائش کے ریکارڈ کے غلط ترجمے، اسلامی تاریخ کے فارم کو انگریزی تاریخ میں تبدیل کرتے وقت، ہوم آفس نے بار بار وضاحت دینے کے باوجود ان کی درخواست کو ایک سال تک لٹکائے رکھا اور بعدازاں ہوم آفس نے فروری 2020 میں تسلیم کیا کہ تاریخ پیدائش میں ہونے والی غلطی، غلط ترجمے کا نتیجہ تھی۔
تاہم اس کے بعد محکمے نے شنواری کو ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کا مشورہ دیا کیونکہ ہوم آفس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس بات کے ’ناکافی ثبوت‘ ہیں کہ وہ اس بچے کے اصل والد ہیں۔
فیاض شنواری جو اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ افغانستان میں سال میں تقریباً تین ماہ گزارتے ہیں، نے مارچ میں 500 پاؤنڈ کی لاگت سے ڈی این اے ٹیسٹ کروایا، تاہم اگلے ماہ انہیں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کی وجہ سے محکمہ سست روی کا شکار ہے اور ٹیسٹ کے نتائج بھیجنے میں تاخیر ہوگی۔
اس کیس کے بارے میں دی انڈپینڈنٹ کی جانب سے ہوم آفس کے پریس آفس سے رابطہ کرنے کے بعد ستمبر میں پاسپورٹ جاری کر دیا گیا تھا۔ اگرچہ اب بچے کے پاس برطانوی پاسپورٹ موجود ہے لیکن وہ برطانیہ کا سفر کرنے سے قاصر ہے کیونکہ امیگریشن کے جاری کیس کی وجہ سے ان کی والدہ ان کے ساتھ نہیں جاسکتی ہیں۔
شنواری کے وکیل فیاض سعید نے کہا کہ ان کے موکل کے معاملے میں ’ادارہ جاتی نسل پرستی‘ کے آثار واضح ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’کوئی بھی معقول شخص یہ جانتا ہے کہ ایک سرکاری ملازم کے بچے کی پیدائشی سند جس میں ان کے والد اور والدہ کا نام موجود ہے اور ان کے برطانوی والد کے برطانوی مصدقہ پاسپورٹ اور شناخت ہی کسی درخواست کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے حال ہی میں بہت سارے افغان صارفین کو دیکھا اور سنا ہے جن سے غیر ضروری طور پر ناممکن دستاویزات فراہم کرنے کو کہا گیا اور پھر ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کو کہا گیا۔ بلیک لائیوز میٹر مظاہروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم بحیثیت معاشرہ کس طرح سے ادارہ جاتی نسل پرستی کو روکنے کے خواہاں ہیں۔ یہ معاملہ تشویشناک ہے کیونکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حقیقت میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا ہے۔‘
اس کیس پر بات کرتے ہوئے تارکین وطن کی فلاح و بہبود کی مشترکہ کونسل کے لیگل ڈائریکٹر چائے پٹیل نے کہا: ’وزیر داخلہ پریتی پٹیل نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ونڈرش سکینڈل سے سبق سیکھا ہے، جہاں سیاہ فام اور براؤن لوگوں سے ناممکن سطح پر ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا کہ وہ کون تھے اور ثبوت فراہم نہ کیے جانے پر ان کی زندگیاں تباہ کر دی گئیں۔‘
’یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ہم اب بھی ایسی صورت حال کا کیوں مشاہدہ کر رہے ہیں جہاں ہوم آفس فرسودہ نظام کی جانب پلٹ رہا ہے، جہاں غیر سفید فام شہریوں کو حقیقت میں برطانوی شہریت سے محروم کیا جا رہا ہے۔ ‘
’زیادہ تر لوگوں کو اپنے بچے کے پاسپورٹ کے لیے درخواست دیتے وقت ڈی این اے ٹیسٹ فراہم کرنے کے لیے نہیں کہا جاتا۔ اس طرح کے حالات میں اب نسلی اقلیت کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے برطانوی لوگوں کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟‘
دوسری جانب ہوم آفس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’پاسپورٹ کی تمام درخواستوں کی طرح ’ہر میجسٹی پاسپورٹ آفس‘ (ایچ ایم پی او) اس وقت تک پاسپورٹ جاری کرنے سے قاصر ہے جب تک کہ درخواست دہندہ کی قومیت، شناخت اور اہلیت کے بارے میں تمام تحقیق تسلی بخش طریقے سے مکمل نہیں ہوجاتی۔‘
’جب کسی بچے کے پہلے پاسپورٹ کے لیے درخواست کا جائزہ لیا جاتا ہے تو ایچ ایم پی او کو ماں اور باپ دونوں کی شناخت اور درخواست دہندہ کے ساتھ ان کے تعلق سے مطمئن ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے ہم دونوں والدین سے بنیادی دستاویزات کی فراہمی کی درخواست کرتے ہیں اور ان پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ڈی این اے ٹیسٹنگ مہنگی ہے اور انکوائری کے دیگر تمام راستے ختم ہونے کے بعد ہی ہم صرف منظور شدہ کمپنیوں کے ذریعے ڈی این اے ثبوتوں کی رضاکارانہ فراہمی کی درخواست کریں گے۔‘
© The Independent