وہ ایک نجی چینل میں بطور میزبان کام کرتی تھیں۔ شادی شدہ اور ایک بچے کی ماں بھی تھیں، لہذا ذمہ داریاں بھی کچھ زیادہ تھیں۔ وقت تیز رفتاری سے گزر رہا تھا، اس معمول سے ہٹ کر کوئی بھی کام کرنا ان کے لیے مشکل تو تھا لیکن اس بار ڈاکٹر سے وقت لینے کے لیے مصروفیات نہیں بلکہ ایک انجانا خوف راہ میں رکاوٹ بن گیا تھا۔
’شوبز کے ہی ایک شخص نے مجھ سے ان کے لیے اپوائنمنٹ لیا، اگلے دن میں ہسپتال میں اپنے دفتر آیا تو وہ پہلے سے کرسی پر بیٹھی میرا انتظار کر رہی تھیں۔ جیسے ہی میں نے حال پوچھا وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔‘
خیبر پختونخوا میں کینسر کے علاج کے لیے مشہور ہسپتال ارنم کے ڈائریکٹرڈاکٹر عاکف اللہ خان انڈپینڈنٹ اردو کو ایک نجی چینل کی میزبان عائشہ خان کے بارے میں بتارہے تھے۔
عائشہ کا اصل نام شمیم اختر تھا۔ اگرچہ انہیں چھاتی میں گلٹی کا علم بہت پہلے ہو چکا تھا، تاہم ڈاکٹر عاکف کے مطابق وہ خوفزدہ ہو گئی تھیں کہ کہیں کینسر ہونے کی صورت میں وہ چھاتی سے نہ محروم ہو جائیں۔
’وہ بات کل اور پرسوں پر ڈالتی رہیں، یہ جانے بغیر کہ جب بھی ایک خاتون کو اپنی چھاتی میں غیر معمولی تبدیلی محسوس ہو، تو فوراً ڈاکٹر کے پاس جانا ہی اس مرض سے چھٹکارا دلانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر عاکف نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مصروف خواتین کو اس حوالے سے زیادہ الرٹ رہنےکی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وہ اکثر کام کے بوجھ کی وجہ سےاپنی صحت سے غافل ہو جاتی ہیں ، تاآنکہ بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے، اور بچنے کے امکانات کم تر ہو جاتے ہیں۔
ڈائریکٹر ارنم نے عائشہ خان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ خاتون کی بیماری بڑھنے کی ایک بڑی وجہ علاج بروقت سکریننگ یا تشخیص کا نہ ہونا تھا۔
’کہیں ان کی خوبصورتی ماند نہ پڑجائے، کہیں ان کے شوبز کی دنیا ختم نہ ہوجائے، ان تفکرات اور پریشانیوں کو لے کروہ اتنی محتاط اور خوفزدہ تھیں کہ پہلے وہ ڈاکٹر کے پاس نہیں جارہی تھیں اور بعد میں کیموتھیراپی کروانے سے بھی کترا رہی تھیں۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ علاج میں تاخیر کئی پیچیدگیوں کا باعث بنا اور بلاآخر ان کی موت واقع ہوئی۔‘
معائنہ کرانے میں تاخیر نہ کرنا جان بچا سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق چھاتی کا کینسر خواتین میں کثرت سے پایا جانے والا کینسر ہے جس سے ہر سال پوری دنیا میں 2.1ملین خواتین متاثر ہوتی ہیں۔
ادارے کے محتاط اعدادوشمار کے مطابق 2018 میں 627,000خواتین کی اموات چھاتی کے کینسر سے واقع ہوئیں، جس میں زیادہ تر خواتین کا تعلق ترقی یافتہ ممالک سے تھا تاہم طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ چھاتی کے کینسر کی شرح اب ہر خطے میں بڑھتی جارہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر عاکف اللہ خان کا کہنا ہے کہ چھاتی کے کینسر میں بروقت تشخیص اور سکریننگ سے نہ صرف جان بچائی جا سکتی ہے بلکہ ابتدائی مرحلے میں اس کے علاج پر خرچہ بھی کم آتا ہے۔
’کینسر کا علاج بہت مہنگا ہے۔ ایک ایک انجکشن لاکھوں میں خریدا جاتا ہے۔ تو اچھا یہی ہوگا کہ خواتین میں اتنا شعور ہو کہ وقتاً فوقتاً اپنا جسمانی معائنہ خود ہی کیا کریں اور چھاتی میں ذرا بھی تبدیلی محسوس ہو تو ہسپتال سےاپنا طبی معائنہ کروائیں۔‘
سکریننگ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ چھاتی میں علامت ظاہر ہونے سے قبل خواتین میں کینسر کی تشخیص کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر خواتین اپنا معائنہ خود کرنا چاہتی ہوں تو مندرجہ ذیل علامات ظاہر ہونے کی صور ت میں فوراً ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔
چھاتی میں درد کا اٹھنا
چھاتی میں سوجن کا ہونا
چھاتی یا بغل میں گلٹی نکل آنا
نپل کے اندر یا آس پاس درد ہونا
نپل سے دودھ کا خارج ہونا
چھاتی کی سائز یا شکل میں کوئی تبدیلی
ڈاکٹر عاکف نے چھاتی کے کینسر میں مبتلہ خواتین کے لیے اہم پیغام میں یہ بھی کہا کہ پرانے وقتوں کے برعکس اب چھاتی کے سرطان میں مبتلا خواتین کی چھاتی نہیں کاٹی جاتی۔