مریخ اور مشتری کے درمیان لوہے اور نکل سے بنا ایک ایسا سیارچہ گردش کر رہا ہے جو مکمل طور پر نکل اور لوہے کا بنا ہوا ہے اور اس کی مالیت کا تخمینہ ایک کروڑ کھرب ڈالر لگایا گیا ہے۔
یہ رقم اتنی بڑی ہے کہ اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ بس اپنی آسانی کے لیے یہ سمجھ لیجیے کہ یہ دنیا کی کل سالانہ پیداوار جی ڈی پی کا ایک لاکھ 25 ہزار گنا ہے۔
پلینٹری سائنس جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق (16) سائیکی نامی اس سیارچے کا قطر 225 کلومیٹر کے لگ بھگ ہے، یعنی تقریباً لاہور سے راولپنڈی کے فاصلے کے برابر۔
اکثر سیارچے چٹانوں یا برف پر مشتمل ہوتے ہیں، لیکن (16) سائیکی اس لحاظ سے منفرد ہے کہ تقریباً مکمل طور پر دھاتی ہے۔
تحقیق کی شریک مصنفہ ڈاکٹر ٹریسی بیکر نے ایک بیان میں کہا، ہم نے دھات سے بنے شہاب ثاقب دیکھ رکھے ہیں، لیکن سائیکی اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ ممکنہ سیارچہ مکمل طور پر لوہے اور نکل پر مشتمل ہے۔ ممکنہ طور پر یہ سیارہ بنتے بنتے رہ گیا کیوں کہ کوئی اور سیارچہ اس سے ٹکرا گیا۔‘
سائنس دانوں نے بالائے بنفشی شعاعوں (الٹرا وائلٹ ریز) کی مدد سے اس سیارچے کی ساخت کا مطالعہ کیا۔ ہر عنصر یا مرکب خاص انداز سے روشنی جذب کرتا ہے، اس لیے خلائی اجسام سے آنے والی روشنی کا سپیکٹرومیٹر کی مدد سے مشاہدہ کر کے یہ پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ اس کی ساخت میں کون سے عناصر شامل ہیں۔
امریکی خلائی ادارہ ناسا ایک خلائی جہاز تیار کر رہا ہے جو 2022 میں اس سیارچے کے سفر پر روانہ ہو جائے گا۔ تاہم اس کا مقصد صرف اس سیارچے کا مطالعہ کرنا ہے۔ اس سیارچے کا زمین سے فاصلہ تقریباً 30 کروڑ کلومیٹر ہے، یعنی زمین اور سورج کے فاصلے کا دو گنا۔ ناسا کا اس خلائی مشن چار برس کے سفر کے بعد (16) سائیکی تک پہنچے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس خلائی جہاز پر کئی آلات نصب ہیں جو سیارچے کی خصوصیات، تشکیل اور مقناطیسیت کا مطالعہ کریں گے۔ اس مشن کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ سیارے کیسے تشکیل پاتے ہیں۔
عام طور پر سیاروں کے وسط میں دھاتی مرکز ہوتا ہے۔ خود زمین کے بیچوں بیچ لوہے کا گولہ ہے جس کا قطر 1220 کلومیٹر ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ (16) سائیکی بھی سیارہ بننے کے سفر پر روانہ تھا لیکن کسی اور سیارچے یا سیارے سے زبردست تصادم کے نتیجے میں اس کی سطح کی تہیں اڑ گئیں اور صرف دھاتی مرکز ہی باقی رہ گیا۔
(16) سائیکی پر پائی جانے والی نکل بے حد قیمتی دھات ہے۔ اس سے کئی قسم کے بھرت (alloy) بنتے ہیں اور یہ سٹین لیس سٹیل کی تیاری میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ جدید بیٹریوں کی تیاری میں نکل بےحد اہم ہے، اور خاص طور پر الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریوں میں اس کی بےحد ڈیمانڈ ہے کیوں کہ یہ لیتھیم کی بیٹریوں سے بہتر کارکردگی پیش کرتی ہے۔
دھاتیں، تہذیب کا پہیہ
انسانی تہذیب کی تمام تر ترقی دھاتوں کی مرہونِ منت ہے۔ سب سے پہلے مشرقِ وسطیٰ کے علاقے میں آج سے دس تا سات ہزار سال پہلے تانبہ دریافت ہوا جس سے انسانی تاریخ میں پہلی بار دھاتی اوزار اور ہتھیار تیار کیے گئے، ورنہ اس سے پہلے انسان لاکھوں برس تک اوزار بنانے کے لیے پتھر، لکڑی اور ہڈیوں تک محدود تھا۔
اس کے بعد جست، اور پھر لوہا دریافت ہوا، جو انسانی تاریخ کا ایک اور اہم موڑ ہے۔ 18 صدی میں یورپ میں آنے والے صنعتی انقلاب نے بڑے پیمانے پر دھاتوں کا استعمال شروع ہوا، جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
تاہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ ساری دھاتیں زمین کی سطح پر محدود مقدار میں موجود ہیں اور جلد یا بدیر وہ دن آئے گا جب دنیا میں ان کی قلت واقع ہو جائے گی۔ اسی لیے ماہرین ایک عرصے سے خلا میں کان کنی کے منصوبے بنا رہے ہیں۔
تاہم ایسا کرنا آسان نہیں ہے، کیوں کہ فی الوقت خلا کا سفر بےحد مشکل، لمبا، وقت طلب اور مہنگا ہے۔ ابھی تک چاند سے چند پتھر لانے کے علاوہ انسان کسی اور سیارے یا سیارچے سے کوئی مواد زمین پر نہیں لا سکا۔
خلائی خزانہ کس کی ملکیت ہو گا؟
سوال یہ ہے کہ اگر مستقبل میں کسی ملک کے پاس سیارچوں پر کان کنی کی ٹیکنالوجی آ گئی تو ان معدنیات کا مالک کون ہو گا؟
اس وقت خلا میں کان کنی کے لیے قواعد و ضوابط موجود نہیں ہیں۔
1967 میں آرٹیمس نامی ایک بین الاقوامی معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت خلا اور خلائی اجسام ساری دنیا کی مشترکہ ملکیت ہیں۔ تاحال اس معاہدے پر امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، جاپان، لکسمبرگ اور عرب امارات نے دستخط کر رکھے ہیں۔ تاہم روس نے اسے یہ کہہ کر مسترد کرتا ہے کہ اس کا جھکاؤ امریکہ کی جانب ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی سال اپریل میں ایک انتظامی حکم نامے پر دستخط کیے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اگر امریکہ خلا میں تجارتی بنیادوں پر کان کنی کرتا ہے تو یہ قانونی ہو گی۔ ناسا پہلے ہی سے چاند پر کان کنی کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور گذشتہ ہفتے چاند پر پانی کی موجودگی کی خبر نے اس منصوبے کو مزید تقویت بخشی ہے کیوں کہ اس طرح کسی مشن کو زمین سے پانی ساتھ لے جانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔