دن کا آغاز معمول کے مطابق فجر کی نماز ادا کرنے سے ہوا اور طلبہ جامعہ زبیریہ سے متصل سپین جماعت نامی مسجد میں درس کے لیے چلے گئے۔
صبح کے آٹھ بجے تھے، مدرسے کے مہتمم رحیم اللہ حقانی احادیث کی عربی سمیت پشتو میں تشریح کر رہے تھے۔ طلبہ کے سامنے چھوٹا سا ریک جو عمومی طور پر مدرسے کے طلبہ کے پاس کتاب رکھنے کے لیے ہوتا ہے اور ہاتھوں میں قلم موجود تھا، جس پر وہ درس کے کچھ پوائنٹس نوٹ کر رہے تھے۔
ابھی مرنے کے حوالے سے ایک حدیث کا ترجمہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ مسجد کا مرکزی ہال دھماکے کی گونج سے لرز اٹھا۔ یہ 28 اکتوبر کو پشاور میں واقع دیر کالونی کی سپین جماعت مسجد میں ہونے والا وہ دھماکہ تھا جس میں مدرسے کے آخری سال کے طلبہ میں سے نو ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
اس دھماکے میں نو خاندانوں کے چراغ گل ہوگئے، جو خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ان طلبہ میں چار کا تعلق افغانستان کے مختلف صوبوں سے تھا جو اس مدرسے میں تعلیم کی غرض سے آئے تھے۔ انڈپینڈنٹ اردو نے پشاور مدرسہ دھماکے میں مارے جانے والے طلبہ کے خاندان والوں اور دوستوں سے بات کرنے کی کوشش کی ہے۔
محمد سلمان محسود، شمالی وزیرستان
عمر:21سال
’سلمان کے جانے سے کمر ٹوٹ گئی ہے‘
محمد سلمان محسود نے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کی تحصیل تیاندہ میں محمد ظہور کے گھر آنکھ کھولی۔ وہ 1999 میں پیدا ہوئے اور ابھی 21 سال کے تھے کہ دین کی تعلیم کا شوق انہیں دیر کالونی کی جامعہ زبیریہ میں لے آیا۔
محمد سلمان کے بچپن کے دوست عبدالوحید محسود نے بتایا کہ وہ نہایت ہی نیک، پرخلوص انسان تھے اور جب بھی وہ ان سے ملے تو انہیں کتاب پڑھتے ہوئے پایا۔
احسان اللہ سلمان کے چچا ہیں اور ان کی تربیت میں بڑا ہاتھ انہی کا تھا۔ احسان بتاتے ہیں کہ انہوں نے 12 سال تک سلمان کو اپنے پاس رکھا تاکہ ان کی تربیت کر سکیں۔ ’سلمان کی خواہش تھی کہ دینی تعلیم حاصل کر کے عالم بن سکے۔‘
احسان اللہ نے بتایا کہ ’12 سال محنت کی۔ سلمان کو غلط محفلوں اور اسلحے سے ہمیشہ دور رکھا لیکن ظالموں نے ان کو اسلحے کی وجہ سے نہیں بلکہ حدیث پڑھنے کی وجہ سے شہید کیا۔ ان کی شہادت سے میری اور گھر والوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔‘
محمد سلیمان آفریدی، باڑہ ضلع خیبر
عمر:23 سال
محمد سلیمان قبائلی ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ کے سم بابا گاؤں میں 1997 میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مختلف مدارس کا رخ کیا۔ دینی تعلیم کے آخری سال میں سلیمان پشاور کی دیر کالونی کی جامعہ زبیریہ میں تعلیم کے غرض سے گئے جہاں پر وہ بارود کا نشانہ بن گئے۔
سلیمان کے دوست عبدالوحید نے بتایا کہ سلیمان ’ان کا جگری دوست تھا اور ہمیشہ ان کو ہنستے مسکراتے ہوئے پایا۔‘
محمد عارف، ضلع خیبر
عمر:27سال
’بھائی کو کتابوں کے درمیان شہید کیا گیا‘
محمد عارف کا تعلق ضلعی خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل سے تھا۔ وہ1991 میں پیداہوئے اور دیر کالونی کے مدرسہ زبیریہ میں ساتویں درجے کے طالب علم تھے۔
عارف کے بھائی محمد یونس بتاتے ہیں کہ وہ بچپن سے مدرسے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ کم عمری میں قرآن حفظ کرنے کے بعد ملک کے مختلف مدرسوں میں دینی تعلیم کی غرض سے اپنی زندگی گزاری اور ابھی آخری سال میں تھے اور آئندہ سال گریجویٹ ہونے والے تھے۔
’گھر والے سب خوش تھے کہ عارف دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد گھر آئے گا اور ان کو ہاسٹل کی زندگی سے چھٹکارہ مل جائے گا لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ میرے بھائی کو کتاب اور حدیث پڑھتے ہوئے شہید کیا گیا۔‘
عارف نے سوگوران میں دو بچے اور اہلیہ چھوڑی ہے۔ یونس کے مطابق ان کے بچے ابھی چھوٹے ہیں اور سات سال پہلے انھوں نے شادی کی تھی۔ یونس نے کہا ’میں اس کا بڑا بھائی تھا اور زندگی میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے مجھے سخت بات کی ہو یا میری بات نہ مانی ہو۔ ان کے جانے کا غم ہمیشہ رہے گا لیکن دل کو یہ تسلی ضرور ہے کہ کتابوں کے درمیان دین کی سربلندی کی خاطر شہید کیا گیا۔‘
محمد معروف، ماشوخیل پشاور
عمر:20سال
’بھائی کی یاد ساری عمر ستائے گی‘
محمد معروف ابھی 20 سال کے تھے اور خاندان والوں کے مطابق دل میں کئی ارمان لیے دنیا سے اس انداز میں چلے گئے۔ ان کے بھائی ملوک شاہ نے بتایا کہ وہ بچپن سے گاؤں کے مدرسے میں پڑھتے تھے اور اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جامعہ زبیریہ گئے تھے۔
معروف کی ایک چھوٹی بیٹی ہے۔ ان کے دو بھائی محنت مزدوری کرتے ہیں جبکہ تین بھائی چھوٹے ہیں جو ابھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ملوک شاہ نے بتایا: ’بھائی کا غم بہت بڑا ہے۔ وہ حجرے میں امامت کرتے تھے اور گھر کے بچوں کو بھی پڑھاتے تھے لیکن چھ مہینے سے پشاور کے مدرسے میں تھے جہاں پر ان کو شہید کر دیا گیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ہمارا تعلق متوسط گھرانے سے ہے اور امید کرتے ہیں کہ حکومت میرے بھائی کے بچوں کے اخراجات کا ذمہ اٹھائے گی تاکہ وہ آگے تعلیم کی نعمت سے محروم نہ ہو جائیں۔
محمد خالد، افغانستان
عمر:24 سال
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خالد مدرسے میں بزرگ کے نام سے کیوں مشہور تھے؟
محمد خالد کا تعلق افغانستان سے تھا اور گذشتہ چھ مہینوں سے اسی مدرسے میں زیر تعلم تھے۔ 24 سالہ خالد آئندہ سال مدرسے سے فارغ ہو کر ڈگری کے منتظر تھے لیکن وہ اس انتظار میں اس دنیا سے چلے گئے۔
خالد کے ساتھ ایک ہی کمرے میں رہنے والے اور قریبی دوست زبیر خاکسار نے بتایا کہ خالد نہایت ہی ملنسار شخصیت کے مالک تھے اور یہی وجہ تھی کہ مدرسے میں وہ ’بزرگ‘ کے نام سے مشہور تھے۔ ز
بیر نے بتایا کہ خالد کے خاندان والے افغانستان میں رہتے ہیں اور وہ یہاں پر تعلیم کی غرض سے آئے تھے۔ خالد کی لاش کو ان کے آبائی گاؤں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ’خالد کے ساتھ آخری بار ملا تو انہوں نے مجھے یہ بتایا: زبیر ! ہمیشہ دونوں ہاتھ ملا کر لوگوں سے ملا کرو کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے۔‘
موسیٰ کلیم، بلوچستان
عمر:24 سال
شادی طے تھی لیکن ہو نہ سکی
موسیٰ کلیم کا تعلق بلوچستان کے علاقے قلعہ عبداللہ سے تھا اور چھ ماہ قبل ہی تعلیم کی غرض سے مدرسہ زبیریہ میں داخلہ لیا تھا۔ انھوں نے ابتدائی دینی تعلیم کوئٹہ کے مختلف مدارس سے حاصل کی اور تعلیم کے آخری سال میں تھے۔
موسیٰ کلیم کے ایک دوست نے بتایا کہ موسیٰ کی آئندہ مارچ میں شادی بھی طے تھی، یہی وجہ ہے کہ وہ درس و تدریس سے فارغ ہو کر شادی کی شاپنگ بھی کیا کرتے تھے۔
نعمت اللہ، پکتیا افغانستان
عمر:20 سال
نعمت اللہ کا تعلق افغانستان کے صوبہ پکتیا سے تھا اور تعلیم کی غرض سے پشاور کی جامعہ زبیریہ میں چھ ماہ پہلے آئے۔ نعمت اللہ اپنے والد کے اکلوتے بیٹے تھے جو خود بھی ایک عالم تھے۔ والد کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا ان کے نقش قدم پر چل کر دینی تعلیم حاصل کرے اور دین کی خدمت کرے لیکن وہ بھی اس دھماکے کا نشانہ بن گئے۔
محب اللہ، غور افغانستان
عمر :20 سال
محب اللہ کا تعلق بھی افغانستان سے تھا اور دیگر طالب علموں کی طرح وہ بھی آئندہ سال دینی تعلیم مکمل کرنے والے تھے۔ وہ دین کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے افغانستان کے دور دراز صوبہ غور سے پشاور کے اس مدرسے میں آئے جہاں ان کی تعلیم تو مکمل نہ ہو پائی مگر زندگی تمام ہو گئی۔
محمد زبیر، افغانستان
عمر:29 سال
محمد زبیر بھی افغان طلبہ کی فہرست میں شامل تھے اور انہوں نے بھی چھ ماہ پہلے ہی اس مدرسے میں داخلہ لیا تھا۔