فرانس: مسلمانوں میں ’ملک چھوڑنے تک پر بات ہو رہی ہے‘

تازہ حملوں کے بعد ملکی ردعمل کے دوران فرانس میں مقیم مسلمانوں نے حوصلے تو بلند رکھے ہیں مگر اندر ہی اندر کچھ لوگ ان حالات سے پریشان ہیں اور ایسا محسوس کر رہے ہیں کہ انہیں ان کا ذمہ دار سمجھا جا رہا ہے۔

فرانس میں پیش آنے والے کچھ واقعات کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے (اے ایف پی)

ہر نئے حملے کے ساتھ دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ گذشتہ پانچ ہفتوں میں تین حملوں کے بعد فرانس میں مقیم مسلمان اپنے لیے جگہ تنگ ہوتی محسوس کر رہے ہیں۔

شک کی نگاہ ان پر حالیہ حملوں سے پہلے سے ہی تھی جن میں سر قلم کرنے کے دو واقعات شامل ہیں۔ صدر ایمانوئل میکروں فرانس سے مذہبی شدت پسندوں کو ختم کرنے کے اپنے منصوبے پر قائم ہیں۔ اسے وہ ’علیحدگی پسندی‘ کا نام دیتے ہیں، ایک لفظ جس پر مسلمان ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔

شدت اختیار کرتی تقاریر اور تازہ ترین حملے میں گذشتہ ہفتے نیس میں ایک گرجا گھر پر حملے میں تین اموات کے درمیان فرانس میں بسنے والے مسلمانوں نے حوصلہ بلند رکھا ہے۔ مگر اندر ہی اندر کچھ ان حالات سے پریشان ہیں اور ایسا محسوس کر رہے ہیں کہ انہیں ان کا ذمہ دار سمجھا جا رہا ہے۔

سوشیالوجسٹ ہشام بینائسا جو کام کرنے کی جگہوں پر اسلام کے موضوع میں ماہر ہیں نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا: ’یہ سب مسلمانوں کے لیے بہت پریشانی کی بات ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ان کی جان پہچان کے لوگوں میں ’فرانس چھوڑنے تک پر بات ہو رہی ہے۔ صورت حال پریشان کن ہے۔ خوف بھی ہے۔‘

اسلام فرانس کا دوسرا بڑا مذہب ہے اور یہاں مغربی یورپ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے۔ مگر ملک کے پچاس لاکھ مسلمانوں کو یہاں مکمل طور پر قبولیت حاصل کرنے کے لیے ایک باریک لکیر پر چلنا پڑا ہے۔ کچھ کے لیے امیتازی سلوک زندگی کا حصہ رہا جبکہ کچھ تو ایسے ہیں جن کے لیے اس کی وجہ سے مرکزی دھارے میں شامل ہونا ہی ممکن نہ ہوا۔  

فرانس کی قومی طور پر عزیز روایت سیکیولرزم  کا مقصد مذہبی آزادی کو یقینی بنانا ہے مگر حالیہ سالوں میں ریاست اس کا استعمال کچھ مسلمانوں کی رسم و روایات کو قابو میں لانے کے لیے کرتی نظر آ رہی ہے۔ صدر کی جانب سے تجویز کردہ ایک نیا قانون 1905 میں پاس ہونے والے سیکیولرزم کے قانون میں مزید تبدیلیاں لا سکتا ہے۔

میکروں کے بیانات نے اس گذشتہ ہفتے جبوبی ایشیا سے لے کر مشرق وسطیٰ تک مظاہروں اور فرانسیسی مصنوعات کے بائی کاٹ کے مطالبوں کو  جنم دیا ہے۔ ان پر مسلم مخالف جذبات کو ابھارنے کا الزام ہے خاص طور پر تب جب انہوں نے پیرس کے قریب قتل کیے جانے والے ایک استاد کے بارے میں بات کرتے ہوئے پیغمبر اسلام کے خاکے بنانے کے فرانسیسی حق کی دفاع کیا۔  

سیموئل پیٹی پر چیچنیا سے آئے پناہ گزین نوجوان نے 16 اکتوبر کو حملہ کیا تھا کیونکہ انہوں نے اپنی ایک کلاس میں یہ خاکے دکھائے تھے۔ گذشتہ جمعرات کو ایک تیونس کے باشندے نے جنوبی شہر نیس میں ایک گرجا گھر پر حملے میں تین لوگوں کو مار ڈالا تھا جن میں سے ایک خاتون کا سر قلم کیا گیا۔

ان خونی حملوں کی شروعات 25 ستمبر کو ہوئی جب ایک پاکستانی پناہ گزین نے پیرس میں میگیزن ’چارلی ایبدو‘ کے پرانے دفاتر کے باہر دو لوگوں کو حملہ کر کے زخمی کردیا۔ پیغمبر اسلام کے خاکے شائع کرنے پر جنوری 2015 میں حملہ آوروں نے اسی میگزین کے دفتر میں دھاوا بول کر 12 لوگوں کو ہلاک کردیا تھا۔ اس معاملے میں ٹرائل ابھی چل رہا ہے۔

فرانس کے مسلم مذہنی رہنماؤں کی جانب سے اظہار یکجہتی کے پیغام بھی ساتھ ساتھ ہی آتے رہے ہیں۔ نیس کے الرحمن مسجد کے امام اتمان ائیساوئی نے کہا کہ حملے سے وہ ’بہن بھائی متاثر ہوئے جو اپنے رب سے دعا کر رہے تھے۔ میں آج مسیحی ہوں۔‘

تاہم انہوں نے یہ بھی کہ ’ایک بار پھر سے ہمیں رسوا کیا جا رہا ہے اور لوگ فوراً ہی چیزیں ایک دوسرے سے جوڑ دیتے ہیں۔‘ ان کی بیان میں فرانس میں مسلمانوں کی بڑھتی بے چینی کی عکاسی سی جہاں زیادہ تر مسلمان شمالی افریقہ میں فرانسیسی نو آبادیوں سے ہیں۔  

فرنچ کونسل فار مسلم فیتھ کے اہلکار عبداللہ زیکری نے کہا کہ مسلمان ’نہ گناہ گار ہیں اور نہ ہی ذمہ دار ۔۔۔  ہمیں اپنی صفائی پیش کرنے کی ضرورت نہیں پیش آنی چاہیے۔‘

میکروں کے ’علیحدگی پسندی‘ منصوبے میں فرانس میں اماموں کی تربیت سے لے کر مسلم تنظیموں کی مینجمنٹ میں تبدیلیاں لانا شامل ہے۔

تازہ حملے اور اور یہ منصوبہ دراڑوں میں مزید اضافے کا باعث بنا ہے۔  

اس نے سیکیولرزم پر بھی دوبارہ نظریں ڈال دیں ہیں جسے آئین میں شامل کیا گیا ہے مگر اس کی کوئی واضع تعریف نہیں۔

بورڈو میں ایک امام طارق اوبرو کا کہنا تھا: ’اسلام کی موجودگی کے بارے میں فرانسیسی سوسائٹی نے پہلے نہیں سوچا تھا۔‘

ماضی میں بھی اس حوالے سے تناؤ رہا ہے خاص طور پر جب سیکیولرزم کے قانون میں تبدیلیاں لائی گئیں ہیں جیسے 2004 کا قانون جس کے تحت کلاسوں میں حجاب پر پابندی اور 2010 میں چہرے ڈھانپنے پر پابندی کا قانون۔

سوشیالوجسٹ بینائسا نے کہا: ’سیکیولرزم ہمیشہ سے ایک سکوک سکرین رہا ہے ۔۔۔ اسلام کے سوال سے نمٹنے کے لیے ایک خفیہ طریقہ۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تولوز کیپیٹول یونیورسٹی میں مذہنی آزادی اور سول لبرٹیز  پر تحقیق کرنے والی رم سارا ایلونی نے مزید سخت الفاظ استعمال کیے۔ ان کا کہنا تھا: ’1990 کی دہائی سے سیکیولرازم کو مسلح کر دیا گیا، بطور سیاسی ہتھیار اس کا مذہنی نشانات کو محدود کرنے کے لیے غلط استعمال کیا گیا، خاص طور پر مسلمانوں کے لیے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ریاست کو چاہیے کہ وہ اس کا احترام کرے، اس کی وسعت کا کو مکمل طور پر قبول کرے اور اسے خطرہ نہ سمجھے۔‘

عوامی سوچ میں اسلام آہستہ آہستہ بڑھا اور اس پر کسی کی تب تک توجہ نہیں تھی جب تک انتہائی دائیں حلقوں نے اس کو فرانسیسی شناخت کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے قبضہ کر لیا۔ سالوں کے اندر اندر مسجدوں اور مسلمان سکولوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد ابتدا میں مسلمان فرانس میں معمولی نوکریاں کرنے کے لیے آئے۔ بینیسا کے مطابق 1970 کی دہائی میں گاڑیاں بنانے والے فیکٹریوں، تعمیرات اور دیگر شعبوں میں کام کرنے والے مسلمان ’فرانسیسی صنعت کے کلیے انتہائی اہم‘ تھے۔ رینالٹ نے تو نماز ادا کرنے کے لیے کمرے بھی بنا رکھے تھے۔

انہوں سوال کیا کہ ’آج جب کوئی حجاب کیے خاتون کمپنی میں آتی ہے تو یہاں۔۔۔۔ نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ کیا ہو گیا؟‘

وہ کہتے ہیں کہ ’بہت سے مسلمان اپنے والدین اور ابا و اجداد کی طرح نہیں بلکہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اچھی ملامتیں کر رہے ہیں اور ’واپسی کے افسانے‘ کو مٹا رہے ہیں۔‘

ایک ماہر اولیور رائے نے پارلیمانی کمیٹی کو بتایا کہ بہت سے مسلمانوں نے فرانسیسی کلچر کے لیے بہت کام کیا ہے۔ انہوں نے خود کو ریپبلک آف فرانس کے لیے بنایا اور شکایت کرتے ہیں کہ انہیں جواب میں کچھ نہیں ملتا، انہیں پہچان نہیں ملتی۔‘

میکروں نے ایک تقریر میں کہا کہ فرانس مسلمانوں کے ہاؤسنگ منصوبوں میں ’الگ رہنے‘ کی مکمل ذمہ داری لیتا ہے مگر انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ پلانڈ قانون مسلمانوں کی ’بدنامی‘ کے لیے نہیں۔

لیکن پھر کئی کے لیے ’بدنامی‘ فرانس میں زندگی کا حصہ ہے، شناخت کے لیے پولیس کی جانب سے الگ کیے جانے سے ملامتوں کی تلاش میں امتیاز تک۔

بورڈیاوکس امام اوبورو کہتے ہیں کہ ’مسلمان کو مذہب تک محدود کر دیا گیا ہے، مسیحی کی زندگی میں سب کچھ مسیحی نہیں ہوتا۔‘

میکروں کے منصوبے میں امام کو ترکی، مراکش اور الجیریا سے لانے کی بجائے فرانس میں ہی تربیت دینے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

بینیسا کہتے ہیں کہ ’اسلام اسلام ازم نہیں ہے، مسلمان، اسلام پسند نہیں۔ ضروری نہیں اسلام پسند جہادی ہو، مجھے شناختوں کے انتہا پسند ہونے سے خوف آتا ہے، ایک طرف مسلم شناخت کا دعویٰ کرتی ہے اور دوسری طرف فرانس کی شناخت کی دعویدار ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا