کسی بھی حکومت کی کارکردگی کو پرکھنے کے دو پیمانے ہوتے ہیں۔ اس کی داخلی پالیسی نے عوام کی زندگی میں کتنی آسانی پیدا کی اوراس کی خارجہ پالیسی نے بین الاقوامی برادری میں اپنے ملک کو کتنا معتبر بنایا؟
یہ تحریر کالم نگار کی آواز میں سننے کے لیے نیچے کلک کیجیے
حکومت کی داخلی پالیسی تو بہار کی ہوا کی طرح آپ ہی اپنا تعارف ہے۔ سوال اب یہ ہے عمران خان کی خارجہ پالیسی نے پاکستان کو کیا دیا؟
پاکستان کی خارجہ پالیسی کے تین محاذ ہیں۔ مسلم دنیا، علاقائی سیاست اور بین الاقوامی برادری۔ ان تینوں محاذوں پر اس حکومت کی کار کردگی کا جائزہ لیا جائے تو سونامی کی بے اماں موجوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
مذہبی، معاشی یا تزویراتی، مسلم دنیا میں تعلقات کا کوئی بھی پیمانہ مقرر کر لیں، سعودی عرب سر فہرست ہو گا اور پھر خلیجی ممالک ہوں گے۔ اب کوئی مانے یا نہ مانے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان تعلقات میں پہلے والی گرمجوشی نہیں رہی۔ یو اے ای سے پاکستانی افرادی قوت کو ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے اور مزید ریکروٹمنٹ میں پاکستان اب کسی کی ترجیح نہیں۔ ہمارے معاشی امکانات سکڑ رہے ہیں۔ سعودی عرب سے تعلقات میں تناؤ واضح طور پر محسوس کیا جا رہا ہے۔ سفارتی معاملات ہوں یا معاشی، پہلے والی بات نہیں رہی۔ پریشانی بڑھتی ہے تو آدمی گھبرا کر سوچتا ہے: ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
اس سوال کے جواب میں کچھ مفروضے ہیں جو سادہ لوحوں کی ہتھیلی پر رکھے ہیں۔ ان مفروضوں کے مطابق تعلقات میں تناؤ کی وجہ پاکستان کا کچھ امور پر اصولی موقف ہے اور سی پیک ان میں سر فہرست ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سی پیک سے امریکہ خفا ہے اور عرب دنیا امریکہ کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ جی کے بہلانے کو تو یہ خیال بہت اچھے ہیں لیکن جب زمینی حقیقتوں پر انہیں پرکھا جائے تو ان کے نقائص واضح ہو کر سامنے آجاتے ہیں۔ سی پیک کے لیے اگر ہم اس حد تک پر عزم ہیں کہ نقصانات کی پرواہ نہیں تو پھر سی پیک پر کام اسی تیزی سے کیوں نہیں ہو پا رہا اور رزاق داؤد نے آتے ہی سی پیک کے خلاف بیان کیوں داغا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سعودی عرب اور عرب دنیا سے تعلقات میں سرد مہری آ جانا معمولی بات نہیں۔ ہمارے لاکھوں لوگ یہاں بر سر روزگار ہیں، امور خارجہ کی وہ کون سی نزاکت تھی کہ اس معاشی امکان کو نظر انداز کر دیا گیا؟ ایسا کوئی فیصلہ ناگزیر ہو چکا تھا تو کیا اتنا اہتمام بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ پارلیمان کو اعتماد میں لے کر اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ کیا جاتا۔ عشروں کے دیرینہ تعلقات چند لوگوں کی افتاد طبع کی بھینٹ چڑھ جانا معمولی بات نہیں ہے۔
حکومت کی سب سے بڑی غلطی ترکی اور ملائیشیا کے ساتھ مل کر او آئی سی کا متبادل تلاش کرنے کی کوشش تھی۔ او آئی سی سے بہت ساری شکایات سہی، لیکن مسلم دنیا کبھی عالمی بیانیے میں ایک حقیقت بن کر سامنے آئی تو او آئی سی اس کا نقش اول ہو گا۔ جس طرح اقوام متحدہ کی بہت ساری خامیوں کے باوجود دنیا کے لیے اس کا وجود خیر ہے اسی طرح مسلم دنیا کے لیے اپنی ساری ناکامیوں کے باوجود او آئی سی خیر کی ایک قوت ہے۔ ایک خوش کن بیانیے کا سہارا لے کر اس کا متبادل تلاش کرنے کی کوشش ایک ناقص سوچ تھی۔
مہاتیر کا اقتدار غروب ہو رہا تھا اور ملائیشیا آج تک کبھی سعودی عرب کے مخالف کیمپ میں نہیں گیا۔ مہاتیر کے بعد اس نئے بلاک کا مستقبل ویسے ہی غیر یقینی تھا۔ ترکی جو بھی ہو کسی حوالے سے ہمارے لیے سعودی عرب کا متبادل نہیں تھا کہ اس کے لیے عربوں کی ناراضی مول لی جاتی۔ ترکی ہو یا ملائیشیا ہر قابل احترام دوست ہمارے سودو زیاں کی فہرست میں سعودی عرب کے بعد آتا ہے۔ پھر یہ ایڈ ونچر کیوں کیا گیا۔ ہر کام سے پہلے ریاستیں اپنے نفع نقصان کا میزانیہ مرتب کرتی ہیں، ہمارا میزانیہ کہاں تھا اور کیا تھا؟ اب یہ سوال دامن گیر ہو چکا ہے کہ یہ حکومت کی سادگی تھی یا یہ او آئی سی کے خاتمہ بالخیر کی ایک شعوری کوشش تھی؟یہ معمولی سوال نہیں۔ اس سوال پر غور کریں تو اس میں ایک جہان معنی چھپا ہے۔
حکومت نے جس سادگی سے داخلی امور کو گھائل کیا اسی سادگی سے امور خارجہ کو الجھایا۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ واحد حکومت ہے جس نے اپنے امور خاررجہ کا تعین ہوش مندی کی بجائے اقوال زریں کی روشنی میں کیا۔ عشروں پر مبنی دوستیاں سوال بن کر رہ گئی ہیں اورکچھ معلوم نہیں پڑتاکون ہمارے ساتھ ہے اور ہم کس کے ساتھ ہیں۔
کشمیر کے معاملے پر ایسی بے بسی کبھی نہ تھی۔ ایسی تنہائی بھی حیران کن ہے۔ علاقائی سیاست میں ہماری افادیت کیا ہے اور بین الاقوامی سیاست میں ہمارا مقام کیا ہے؟ صرف یہ کہ ہم افغانستان میں امن کے لیے ایک رابطہ ہیں؟ امریکی انتخابات کا نتیجہ اگر ٹرمپ کے حق میں آتا ہے تو خطرہ ہے کہ رابطہ کاری کی یہ اہمیت بھی اپنے معنی کھو دے گی۔ عالمی سیاست بلاشبہ مفادات اور امکانات کے تابع ہوتی ہے اور بھارت کا معاشی حجم بہت سے ممالک کو کشمیر پر بولنے نہیں دیتا لیکن کیا ہم یہ بھی نہیں کر سکتے تھے کہ مغربی سماج کے سامنے حقوق انسانی کا ایک بیانیہ رکھ پاتے۔ اگر ہم مودی جیسے شخص کے خلاف بھی یہ بیانیہ کھڑا نہیں کر پائے تو اسے سفارتی کامیابی کہا جائے گا؟
سی پیک ہمارا گیم چینجر تھا اور اب عالم یہ ہے کہ کسی کو قطعیت کے ساتھ علم نہیں کہ یہ معاملہ کہاں تک پہنچا۔ آتے ہی ایک طرف اسد عمر نے معاشی اور سفارتی نزاکتوں کو سمجھے بغیر آئی ایم ایف کے خلاف رجز پڑھنے شروع کر دیے۔ نتیجہ یہ کہ اب ناک سے لکیریں کھینچ کر اسی آئی ایم ایف کے سامنے دست سوال دراز ہے اور عجز و فرمانبرداری کا یہ عالم ہے کہ اپنے مالیاتی اداروں کے سربراہ بھی آئی ایم ایف سے لیے جا رہے ہین۔ ڈور کا کوئی سرا اس کے باوجود ہاتھ میں نہیں آ رہا۔ حکومتیں جب کوئی سمت طے کرتی ہیں تو پالیسی میں غلطی یا صحت کا امکان ضرور ہوتا ہے لیکن ان کی پالیسی اور ان کی سمت بہت واضح ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری سمت کیا ہے؟
ہم ایران جائیں تو ارشاد ہوتا ہے ایران جیسا نظام لائیں گے۔ ہم چین کی جانب نگاہ ناز اٹھائیں تو ارشاد ہوتا ہے چین جیسا نظام لائیں گے۔ ہم داخلی سیاست سے ہمکلام ہوں تو اعلان ہوتا ہے ریاست مدینہ کا نظام لائیں گے۔ نگاہ شوق کو ایسے بال و پر تو کبھی میسر نہ تھے۔
قومی اسمبلی متفقہ قرارداد لاتی ہے کہ فرانس سے سفیر واپس بلایا جائے تو معلوم ہوتا ہے فرانس میں تو پاکستان کا کوئی سفیر ہی نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قرارداد کو پیش کرنے والوں میں وزیر خارجہ خود بھی شامل ہوتے ہیں۔ گویا ہمارے وزیر خارجہ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ فرانس میں سفیر ہے یا نہیں۔ واقف حال پریشان ہیں کہ شاہ محمود قریشی صاحب نے وزارت خارجہ کو محکمہ اوقاف بنا دیا ہے۔
تو کیا امور خارجہ میں بھی سونامی آ چکا ہے؟