فرانس سے جس بحران نے جنم لیا وہ غیر معمولی ہے۔ اقوام عالم کے اجتماعی ضمیرنے اس کی سنگینی کو نہ سمجھا تو دنیا تصادم تہذیب سے دوچار ہو جائے گی۔
مسلم دنیا کے جذبات مجروح ہیں اور یہ تکلیف قابل فہم ہے۔ دل آزاری کے واقعات پہلے بھی ہوتے تھے لیکن ان کی نوعیت انفرادی واردات کی ہوتی تھی۔ اس بار معاملہ مختلف ہے اور فرانس کا صدر بذات خود میدان میں کھڑا ہو چکا ہے۔ اب یہ کسی فرد کا ردعمل نہیں رہا، یہ ایک ریاست کا ردعمل ہے۔ کسی ریاست کا اس نوعیت کا ردعمل خود سیکیولر اقدار سے بھی متصادم ہے۔
فرانس کا موقف البتہ مختلف ہے۔ فرانس کے نزدیک اس کی تازہ پالیسی اسلام کے خلاف نہیں۔ وہ اسے اسلامو فوبیا نہیں سمجھتا۔ اس کے نزدیک یہ آزادی رائے سے اس کی غیر معمولی وابستگی ہے اور وہ اس سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ فرانس کا بیانیہ یہ ہے کہ وہ مسلم دشمن بیانیے کو فروغ نہیں دے رہا بلکہ وہ آزادی رائے کو اپنی اقدار میں سے ایک سمجھتے ہوئے اس پر کسی مفاہمت کو تیار نہیں اور اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ اس کے نتیجے میں ساری مسلم دنیا اس سے ناراض ہو جائے۔
معاملہ مگر یہ ہے کہ فرانس نے اپنے طرز عمل سے اپنے فکری بیانیے کی خود ہی نفی کر دی۔ ترک صدر طیب اردوغان کی جانب سے امانوئل میکروں پر کی جانے والی تنقید کو فرانس نے برداشت نہیں کیا اور ترکی میں اپنے سفیر کو عارضی طور پر واپس بلا لیا ہے۔ معاملہ اگر آزادی رائے سے وابستگی کا تھا تو ترک صدر کی آزادی رائے پر فرانس نے اتنا ردعمل کیوں دیا؟
یہ ردعمل بتا رہا ہے کہ خود فرانس کے ہاں آزادی رائے ایک لامحدود تصور نہیں اور اس کی بعض شکلیں بہت تکلیف دہ ہو سکتی ہیں اور انہیں گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ فرانس کے صدر پر اگر سخت تنقید ہو گی تو فرانس اسے آزادی رائے سمجھ کر برداشت نہیں کرے گا بلکہ اپنی قومی توہین سمجھ کر اپنا سفیر واپس بلا لے گا۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آزادی رائے صرف فرانس کے ماتھے کا جھومر نہیں کہ اس تصور کی تعبیر و تشریح کے جملہ حقوق اسی کے نام محفوظ ہوں۔ آزادی رائے ایک آفاقی تصور ہے اور اس کی حدود و قیود اقوام عالم نے طے کر رکھی ہیں۔ یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس کے آرٹیکل 19، انٹرنیشنل کوویننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس کے آرٹیکل 19، یورپین کنونشن آن ہیومن رائٹس کے آرٹیکل 10 سمیت متعدد بین الاقوامی اعلامیوں میں آزادی رائے کا تصور موجود ہے اور دنیا کی اجتماعی دانش یہ اصول طے کر چکی ہے کہ یہ تصور لامحدود نہیں۔
انٹرنیشنل کوویننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس کے آرٹیکل 19میں یہ اصول طے کر دیا گیا ہے کہ آزادی رائے کی حدود وہاں ختم ہو جاتی ہیں جہاں یہ آزادی رائے دوسروں کے حقوق یا ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہو۔ اسی طرح یہ اصول بھی اسی آرٹیکل میں طے کر دیا گیا ہے کہ آزادی رائے اگر قومی سلامتی، امن عامہ، صحت اور اخلاقیات کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہو تو اس آزادی رائے کو ضروری حد تک محدود کیا جا سکتا ہے۔ امن عامہ تو معمولی چیز ہے، تازہ بحران نے تو امن عالم کو خطرے سے دووچار کر دیا ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں میں اضطراب کا عالم ہے۔
فرانس کو یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ آزادی رائے اور ’ہیٹ سپیچ‘ hate speech میں فرق ہے۔ اقوام متحدہ نے ہیٹ سپیچ کی جو تعریف کر رکھی ہے اسے دیکھ لیجیے، فرانس کا حالیہ بحران اسی کی ایک شکل ہے۔ یہ اقوام متحدہ کا مسلمہ اصول ہے کہ ہیٹ سپیچ کو آزادی رائے کے نام پر فروغ دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی گوارا کیا جا سکتا ہے۔ ہیٹ سپیچ پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے دستخطوں سے جاری ہونے والے پلان آف ایکشن میں واضح طور پر لکھا ہے کہ مسلمان مخالف نفرت کو بھی ہیٹ سپیچ تصور کیا جائے گا اور اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
فرانس میں کسی مسلمان نے قانون ہاتھ میں لیا تو اس پر فرانس اپنے قانون کا نفاذ کر سکتا ہے۔ یہی اصول دنیا میں ہر جگہ کارفرما ہے۔ کسی مذہب کے خلاف نفرت بھرا عمومی بیانیہ کھڑا کر دینا ایک مکمل غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل ہے، جس کی کوئی توجیح پیش نہیں کی جا سکتی۔
فرانس کے رویے نے خود سیکیولرزم کے لیے بہت سے سوالات کھڑے کر دیے ہیں اور ان میں پہلا سوال یہ ہے کہ سیکیولرزم احترام باہمی اور رواداری کا نام ہے یا یہ غیر مذہبی انتہاپسندی کی ایک شکل ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رواداری اور احترام باہمی کس چیز کا نام ہے؟ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا۔ اب اگر مسلم دنیا بار بار یہ بات سمجھا رہی ہے اور بتا رہی ہے کہ اس طرح کے خاکوں سے ان کی دل آزاری ہوتی ہے تو فرانس حکومت اس بات کو سمجھنے کو کیوں تیار نہیں؟
احترام باہمی اور دوسروں کے جذبات کے خیال کے عنوان سے دنیا میں قانون سازی ہو چکی ہے اور ہولوکاسٹ پر ہونے والی قانون سازی اسی کی ایک عملی شکل ہے۔ اب سوال یہ ہے جس طرح دوسروں کے احساسات کے احترام کو قانونی شکل دی گئی ہے، ویسے ہی مسلمانوں کے احساسات کے احترام میں قانون سازی کیوں نہیں ہو سکتی؟
مسلم سماج اس وقت سوالات کے گرداب میں ہے اور ایک سوال یہ ہے کہ فرانس اور مسلم دنیا کے باہمی تعلق کی اساس کیا ہے؟ احترام باہمی کے سوا اس کا کوئی جواب دستیاب نہیں۔ آج کا مسلم نوجوان یہ سوچ رہا ہے کہ اگر آزادی رائے کی اس نامعتبر تشریح کے لیے فرانس اس حد تک جا سکتا ہے کہ وہ پوری مسلم دنیا کے جذبات سے بے نیاز ہے تو مسلم ممالک اپنے بنیادی تصورات سے وابستگی کے اظہار میں کہاں تک جا سکتے ہیں؟
معاشی اور سفارتی مقاطعے کے وہ تمام آپشن موجود ہیں جو دنیا میں رائج ہیں اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں جائز لائحہ عمل سمجھے جاتے ہیں۔