ڈونلڈ ٹرمپ ایک فرد واحد تھے تو رخصت ہوا چاہتے ہیں، لیکن ٹرمپ اگر ایک رویے اور فلسفہ حیات کا نام ہے تو جان لیجیے یہ ڈاکٹرائن اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے۔ ٹرمپ ماضی کا قصہ بن گئے لیکن انسان کے شعور اجتماعی کے لیے ٹرمپ ڈاکٹرائن ایک چیلنج کی صورت باقی ہے۔
ٹرمپ ڈاکٹرائن کیا ہے؟ (نوٹ: لفظ doctrine کا اصل انگریزی تلفظ ’ڈاکٹرِن‘ ہے، مگر اردو میں ڈاکٹرائن ہی مستعمل ہو گیا ہے: ایڈیٹر) دو اور دو چار کی طرح اس کی تعریف ممکن نہیں۔ یہ چونکہ فکری واردات نہیں، افتاد طبع کا آزار ہے اس لیے پیاز کے چھلکوں کی طرح یہ نئے نئے روپ میں سامنے آتی رہے گی۔ گردش دوراں نے جتنے چھلکے اتار پھینکے ان سے ابھرنے والی شبیہہ البتہ سامنے رکھی ہے اور اس ’عین الیقین‘ کی بنیاد پر اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی آواز میں سننے کے لیے نیچے کلک کریں
ٹرمپ ڈاکٹرائن جوہری طور پر تعمیر کی نہیں، انتشار کی قوت ہے۔ یہ بقائے باہمی پر یقین نہیں رکھتی۔ یہ اپنی گروہی بالادستی کی قائل ہے اور اس کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ کو شکست تو ہو گئی ہے لیکن ٹرمپ ڈاکٹرائن کمزور نہیں ہوا۔ یہ ڈاکٹرائن انتشار کی قوت کے طور پر ظہور کر چکا ہے۔ اس بار تو شاید کسی طرح یہ اپنی شکست تسلیم کر ہی لے لیکن ضروری نہیں انتشار کی یہ قوت آئندہ تھم کر رہے۔ یہ کسی بھی وقت ’میں نہ مانوں‘ کا نعرہ لگا کر بروئے کار آ سکتی ہے۔ ہر وہ الیکشن نا معتبر ہوتا ہے جس میں یہ ڈاکٹرائن شکست سے دوچار ہو جائے۔ یہ صرف اس انتخاب کو تسلیم کرتی ہے جس میں یہ فاتح اور کامران رہے۔
ٹرمپ ڈاکٹرائن اگرچہ جمہوریت کی صورت میں ظہور کرتا ہے لیکن جوہری طور پر اس کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ دنیا میں بھی اسے وہی نظام اچھا لگتا ہے جہاں اختیارات فرد واحد یا ایک گروہ کے ہاتھ میں ہوں۔ ڈونلڈ ٹرمپ روس کے ولادی میر پوتن کی تعریف کرتے ہیں تو یہ ان کی غیر جمہوری افتاد طبع کا ایک عکس ہوتا ہے۔ اس ڈاکٹرائن کو گاہے چین کا نظام اچھا لگتا ہے کیونکہ وہاں حزب اختلاف کا جھنجھٹ نہیں تو گاہے وہ ایران جیسا نظام لانے کی خوہاں ہو جاتی ہے۔ علاقے اور ماحول کے مطابق ممدوحین بدلتے رہتے ہیں، لیکن قدر مشترک یہی ہوتی ہے کہ یہ ممدوحین جمہوریت اور حزب اختلاف سے بے نیاز ہوتے ہیں اور عشاق کو یہ مناظر بہت دلربا لگتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرمپ ڈاکٹرائن نرگسیت کا دوسرا نام ہے۔ ایک عدد قائد محترم ہیں اور وہ غلطیوں سے مبرا ہیں۔ بھلے وہ بزنس مین ہوں، چائے بیچتے رہے ہوں یا محض ایک کھلاڑی رہے ہوں اور علم و مطالعے سے ان کو کبھی راوہ رسم نہ رہی ہو لیکن وہ اس بات پر قدرت رکھتے ہیں کہ دنیا کے ہر موضوع پر قوم کی رہنمائی فرما سکیں۔ حتی کہ وہ چاہیں تو دنیا کا جغرافیہ بدل دیں۔ وہ جو کرتے ہیں درست کرتے ہیں۔
ٹرمپ ڈاکٹرائن کی نرگسیت امور خارجہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ کینیڈا، یورپی یونین اور نیٹو وغیرہ سے امریکہ کے ہمیشہ اچھے تعلقات رہے لیکن ٹرمپ کے دور میں ان میں بھی تناؤ رہا۔ چونکہ ٹرمپ ڈاکٹرائن کسی حکمت اور تدبر کے تکلف سے بے نیاز ہوتا ہے اس لیے امور خارجہ میں عشروں کی دوستیاں داؤ پر لگ جاتی ہیں اور سمجھ نہیں آتی دیرینہ دوست خفا خفا سے کیوں ہیں۔ ٹرمپ ڈاکٹرائن امور خارجہ میں مس ایڈ ونچر کرنے پر تلا رہتا ہے اور ورثے میں مسائل چھوڑ جاتا ہے۔
ٹرمپ ڈاکٹرائن کا ایک لازمی عنصر جذباتی استحصال ہے۔ ہر معاشرے کے مسائل ہوتے ہیں۔ ٹرمپ ڈاکٹرائن ان کا حل تجویز نہیں کرتا۔ یہ ان کی بنیاد پر لوگوں کا استحصال کرتا ہے۔ یہ تبدیلی اور ارتقاء کا کوئی ٹھوس لائحہ عمل دینے کی بجائے عوام کی محرومیوں کا پرچم بنا کر انہیں دو چار اقوال زریں کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔ اقوال زریں کی بنیاد پر عوام کا اس بے رحمی سے استحصال کیا جاتا ہے کہ ڈاکٹرائن کے علم برداروں کو خود اپنے اقوال زریں ہی یاد نہیں رہتے کہ کب کس موڑ پر عوام کے استحصال کے لیے کون سا وعدہ کیا تھا۔
ٹرمپ ڈاکٹرائن سماج میں معقولیت کی بجائے جنون کے فروغ کا نام ہے۔ اس جنون کا کوئی بھی عنوان ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی خوش کن نعرہ اس مہم جوئی کا پرچم بن سکتا ہے لیکن منطقی نتیجہ ایک ہی ہوتا ہے کہ سماج ہیجان اور وحشت کا شکار ہو جاتا ہے۔ انتہا پسندی کی یہ شکل مذہبی انتہا پسندی سے کم خطرناک نہیں ہوتی۔ یہ پورے سماج کو تقسیم کر دیتی ہے۔ ٹرمپ ڈاکٹرائن لوگوں کی محرومیوں سے کھیل کر ان میں نفرت اور غیض و غضب بھر کر اس وحشت کا رخ اپنے سیاسی مخالفین کی طرف کر دیتا ہے۔ اب ملک میں بارشیں وقت پر ہوں تو وہ قائد محترم کی بصیرت ہے اور بارشوں سے سیلاب آ جائے تو اس کی ذمہ داری حزب اختلاف پر عائد ہوتی ہے۔ ہر اچھا کام قائد محترم کے حسن کا اعجاز ہوتا ہے اور ہر برائی کا ذمہ دار سیاسی حریف ہوتا ہے۔
ٹرمپ ڈاکٹرائن کا ایک عنصرناگزیریت کا فریب ہے۔ قائد محترم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے تشریف لانے سے پہلے دنیا میں کچھ بھی اچھا نہیں ہو رہا تھا اور اب جو بھی اچھا کام ہونا ہے انہی کے دست قدرت سے ہونا ہے۔ ٹرمپ ایک نیا امریکہ آباد کرنے پر تل جاتے ہیں اور مودی نیا ہندوستان بنانے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ جو جہاں ہوتا ہے وہ اپنا ملک ’نیا‘ کر دینا چاہتا ہے۔ ارتقا کا فلسفہ ٹرمپ ڈاکٹرائن میں اجنبی ہے۔ یہاں قائد محترم سب کچھ نیا کرنے پر تلے ہوتے ہیں اور سب کچھ ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں۔
ٹرمپ ڈاکٹرائن کا ایک اور عنصر فاشزم ہے۔ یہ اپنے سوا کسی اور کا وجود برداشت نہیں کرتا۔ ایک جمہوری نظام میں ہوتے ہوئے حزب اختلاف کو یہ اگل دیتا ہے۔ حزب اختلاف اس کے نزدیک غیر ملکی ایجنٹ اور غدار ہوتی ہے۔ اس کے اصول بھی عصبیت پر کھڑے ہوتے ہیں۔ جو اس کے گروہ میں شامل ہو جائے وہ پاک اور صاف ہو جاتا ہے اور جو دوسری صف میں کھڑا ہو وہ بے ایمان، کرپٹ اور چور کہلاتا ہے۔ تنقید اسے برداشت نہیں ہو پاتی اور میڈیا اس کے نزدیک گستاخ اور شر پسند قرار پاتا ہے۔
ٹرمپ ڈاکٹرائن ایک کیفیت کا نام بھی ہے۔ جب جہاں جو جی میں آئے کہہ دیا جاتا ہے اور بات کرنے کے بعد بھی سوچنے کا تکلف نہیں کیا جاتا۔ غیر ذمہ دار لہجوں کا ایک آتش فشاں ہے اور سہمی سمٹی خلق خدا محو حیرت ہے یہ کون لوگ ہیں جو بولیں تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں۔
دنیا کو درپیش سب سے بڑا چیلنج، اس وقت جمہوریت سے پیدا ہونے والے عوارض کا علاج ہے۔ ٹرمپ نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔