کشمیری زعفران کو پیداوار میں کمی کا سامنا

تین ہزار ڈالر فی کلو سے زائد میں فروخت ہونے والے کشمیری زعفران کے کاشت کاروں کا کہنا ہےکہ اب کاشت اور پھولوں کو چننے میں جتنی مزدوری لگتی ہے اس کا ایک تہائی حصہ بھی انہیں واپس نہیں ملتا۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کے رہائشی بشیر احمد ریشی صبح سویرے گنڈیزل پمپور میں اپنے گھر سے اپنے اہل خانہ سمیت سری نگر سے 18 کلومیٹر دور کونیبل پمپور، جسے زعفران شہر بھی کہا جاتا ہے، میں اپنے زعفران کے کھیتوں کے لیے نکلے۔

بشیر نے یہ کھیت آٹھ سال پہلے خریدا تھا۔ اس میں کھڑے وہ بتاتے ہیں کہ یہ زعفران کے پھول چننے کے لیے ان کا یہاں تیسرا دورہ ہے مگر آخری بھی ہو سکتا ہے کیونکہ جہاں زعفران چننے کا موسم ختم ہو رہا ہے وہیں اس کی پیداوار میں بھی کمی آئی ہے۔

بشیر ان 30 ہزار خاندانوں میں سے ہیں جو کشمیر میں زعفران کی کاشت سے منسلک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کی پیداوار میں کمی کی بہت سی وجوات ہیں جن میں گلوبل وارمنگ، بارشوں میں کمی اور نئی نسل کی اس میں عدم دلچسپی شامل ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اب کاشت اور پھولوں کو چننے میں جتنی مزدوری لگتی ہے اس کا ایک تہائی حصہ بھی انہیں واپس نہیں ملتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارت میں زعفران کی کاشت کرنے والی ریاستوں میں جموں و کشمیر سرفہرست ہے۔ بھارت میں 5707 ہیکٹر پر اسے کاشت کیا جاتا ہے جس میں سے 4496 ہیکٹر کشمیر میں ہیں۔

اس کی پیداور میں کمی کی ایک اور وجہ زرعی زمین پر رہائشی عمارات کی تعمیر بھی ہے۔

کشمیری زعفران 3400 ڈالر فی کلو فروخت ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ دنیا کے مہنگی ترین مصالحوں میں شمار ہوتا ہے۔

بشیر کے کھیت سے تھوڑی ہی دور انڈیا انٹرنیشنل کشمیری زعفران ٹریڈنگ سینٹر ہے جہاں کاشت کار اپنے کھیتوں سے پھول چننے کے بعد انہیں پراسس کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔

یہاں کی معیار کی تشخیص کی لیبارٹری کے انچارج ڈاکٹر ماجد علی کہتے ہیں کہ یہ واحد جگہ ہے جہاں کاشت کار اپنے کھیتوں سے چنے ہوئے زعفران کے پھول لاتے ہیں جہاں انہیں خشک کر کے ان کے معیار کی جانچ کی جاتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہاں آئی ایس او کے معیار کے مطابق زعفران کی جانچ کی جاتی ہے۔

ڈاکٹر ماجد علی کا کہنا کہ ہے کہ کشمیری زعفران اپنے معیار کی وجہ سے دنیا کے دوسرے حصوں میں کاشت ہونے والے زعفران سے مختلف ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا