پاکستان نے وزیراعظم عمران خان کے دورہ ایران سے ایک روز قبل احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ گذشتہ دنوں صوبہ بلوچستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے میں ملوث افراد کو ایرانی سرحد سے معاونت حاصل تھی۔
سنیچر کو اسلام آباد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ایسی مصدقہ اطلاعات ہیں کہ بلوچ دہشت گرد تنظیم کے تربیتی کیمپ ایران میں موجود ہیں۔ ایران پاکستان کا دوست ملک ہے ’ہم اُن سے بلوچ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کی امید رکھتے ہیں۔‘
تاہم شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کا دورہ ایران منسوخ نہیں ہوگا اور وہ شیڈول کے مطابق 21 اپریل کو اپنے پہلے ایرانی دورہ پر جائیں گے۔
بلوچستان کے علاقے مکران کوسٹل ہائی وے پر اورماڑہ کے قریب جمعرات 18 اپریل کی صبح حکام کے مطابق نامعلوم مسلح افراد نے ایک بس پر حملہ کر کے کم از کم 14 مسافروں کو ہلاک کر دیا تھا۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سب جاننا چاہتے ہیں کہ یہ واقعہ کس نے اور کیوں کیا، جبکہ اس واقع میں بھارت کے ملوث ہونے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان نے ان بلوچ دہشت گرد تربیتی مراکز کی نشاندہی کردی ہے۔ ایران کے علاوہ بلوچ دہشت گرد تنظیم کے تانے بانے افغانستان سے بھی ملتے ہیں۔ ایسی صورت میں پاکستان ایران اور افغان حکومتوں سے کارروائی کی امید رکھتا ہے۔‘
پاکستان کی جانب سے ایرانی سفارتخانے کو بھیجے جانے والے احتجاجی مراسلے میں ایران سے اس کی سرزمین استعمال کرنے والی کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس مراسلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ایران کو ان بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے تربیتی کیمپوں اور سرحد پار لاجسٹک بیسز سے آگاہ کرچکا ہے۔ تاہم پاکستان کی جانب سے خفیہ معلومات کے تبادلے کے باوجود ان دہشتگرد تنظیموں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
کیا یہ پاکستان کا ایران سے پہلا احتجاج تھا؟
دونوں ممالک اس سے قبل بھی ایک دوسرے پر دہشت گرد تنظیموں کی معاونت اور ایک دوسرے کے خلاف سر زمین استعمال ہونے کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔
ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق فروری 2019 میں ایران میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں 27 اہلکار ہلاک ہوئے تھے جس کا الزام جیش العدل نامی دہشت گرد تنظیم پر لگاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ تنظیم پاکستانی سرزمین استعمال کر رہی ہے۔
دوسری جانب پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق دسمبر 2018 میں بھی پاکستان نے ایران سے دہشت گرد عناصر سے متعلق اس وقت احتجاج کیا تھا جب پاک ایران سرحد پر پاکستان فوج کے دستے پر ہونے والے حملے میں چھ اہلکار ہلاک اور 14 زخمی ہوئے تھے۔
پاک ایران سرحد کو مخفوظ بنانے کے مشترکہ اقدامات
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’پاکستان نے 950 کلومیٹر طویل پاک ایران سرحد پر باڑ لگانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ باڑ لگانا انتہائی مہنگا کام مگر ناگزیر امر ہے۔ ایران نے بھی اپنی سرحد پر باڑ کا کام شروع کر دیا ہے اور انھوں نے 100 کلومیٹر باڑ کا کام مکمل کر لیا ہے۔‘
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان نے اس سرحد کو مزید مخفوظ بنانے کے لیے چھ اقدامات کیے ہیں۔ ان اقدامات کا فیصلہ 2016 میں ایرانی صدر حسن روحانی کے دورہ پاکستان کے دوران کیا گیا تھا جن پر اب عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔
ان اقدامات کے تحت ایک نئی سدرن کمانڈ تشکیل دی گئی ہے۔ اس کمانڈ کا سینڑ تربت میں قائم کیا گیا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس مقصد کے لیے ایک نئی کور، فرنٹئر کور بنائی ہے تاکہ سرحد کو مخفوظ رکھنے کے لیے جو نفری درکار ہو، وہ پائی جا سکے۔ پاک ایران مشترکہ طور پر جوائنٹ بارڈر سینٹرز پر بھی اتفاق کیا گیا ہے اس کے علاوہ پاک ایران بارڈر پر ہیلی کاپٹر پیٹرولنگ بھی ہوگی۔