یوکرائن میں آج ہونے والے انتخابات کے دوران ایک ہی تلوار موجودہ صدر کے سر پہ لٹک رہی ہو گی۔
کیا وہ باعزت طریقے سے ہار سکیں گے؟
ووٹنگ ٹرینڈ بہرحال یہی دکھاتے ہیں کہ پچھلے پانچ سال سے یوکرائن کے صدر پوروشنکو اب ایک المناک شکست کا سامنا کرنے والے ہیں۔
ان کے مدمقابل ولادی میر زیلنسکی ہیں جو اس سے پہلے ایک مزاحیہ اداکار تھے۔ تازہ ترین سروے کے مطابق 73 فیصد ووٹ ان کے حق میں پڑنے والے ہیں۔
موجودہ صدر پوروشنکو پچھلی دو دہائیوں سے یوکرائن کی سیاست کا اہم چہرہ ہیں جب کہ زیلنسکی کا نام بھی اس سے پہلے بطور سیاست دان کسی نے سوچا نہیں ہو گا۔
یہ بلا شبہ یوکرائن کے لیے ایک نئے سیاسی دور کا آغاز ہو گا۔
صدارتی امیدوار زیلنسکی کا منشور بالکل واضح ہے۔ کرپشن ختم کرنا۔ تنخواہیں بڑھانا اور مشرق میں جاری جنگ کو ختم کرنا۔
یوکرائن کے پہلے صدر اس صورتحال سے مایوس ہیں۔ لیونیڈ کراوشوک کہتے ہیں کہ ایک مزاحیہ اداکار کو الیکشن جتوانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ عوام اب سیاست دانوں سے مایوس ہو چکے ہیں۔ سیاست دان پچھلے 28 برس میں جمہوریت، صحت مند معیار زندگی، امن ۔۔۔ کچھ بھی نہیں دے پائے۔ لوگ تھک چکے ہیں اور اب وہ ایک نیا صفحہ پلٹنا چاہتے ہیں۔
سرگئی لشنکو جنہیں مستقبل کے صدر کی ٹیم کا ایک اہم نام سمجھا جاتا ہے، ان کے مطابق 'پورا ملک سٹیٹس کو توڑنا چاہتا ہے۔ وہ سب سیاست کو بدلنا چاہتے ہیں۔ 2014 کے مقابلے میں آج بہت سا وقت ضائع ہو چکا ہے۔ بے شک حالات زیلنسکی کے لیے زیادہ سخت ہوں گے لیکن انہیں حل نکالنے بھی آتے ہیں۔'
'زیلنسکی نئے چہروں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ ایسی اعلی سیاست سے ناواقف ہیں۔ ان کے خیال میں تو میں بھی اس سارے کام کے لیے بہت بوڑھا ہوں۔' (سرگئی لشنکو اس وقت 38 برس کے ہیں۔)
زیلنسکی کو سارے ملک کی اشرافیہ اچھے طریقے سے جانتی ہے۔ وہ ان کے بچوں کی سالگرہوں میں بھی کامیڈین کے طور پہ اداکاری کر چکے ہیں۔ یہ صدارتی عہدہ ان کی صلاحیتوں کا یقینی امتحان ہو گا۔
دوسری طرف یوکرائن کی سول سوسائٹی اس حق میں بالکل نہیں ہے۔ وہ زیلنسکی کو ایک مقبولیت پسند انسان سمجھتے ہیں اور ان کے خیال میں صدارتی عہدے کے لیے ایک مزاحیہ اداکار کا انتخاب المیے سے کم نہیں ہو گا۔
یوکرائنی ریڈیو کی صحافی نتالیہ گمیوک کا یہ کہنا ہے کہ پچھلے پانچ برس میں انقلاب پسند اور پرجوش نوجوانوں کی ایک محدود تعداد بھی اہم سیاسی عہدوں پر منتخب کی گئی ہے۔ وہ صدر پوروشنکو پہ تنقید بھی کرتے ہیں لیکن کم از کم وہ انہیں جانتے ضرور ہیں۔ ان کے خیال میں زیلنسکی تو بالکل ایک نیا اور اجنبی چہرہ ہیں۔
بعض تبصرہ نگاروں کے نزدیک متوقع صدر زیلنسکی کا اجنبی اور ناتجربہ کار ہونا ہی ملک کے حق میں بہتر ثابت ہو گا۔