پاکستان اور ایران نے پیر کو باہمی سرحد پر دہشت گردی کے تدارک کے لیے ’مشترکہ فورس‘ بنانے پر اتفاق کیا ہے۔
یہ اعلان ایرانی صدر حسن روحانی اور دو روزہ سرکاری دورے پر تہران میں موجود وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے درمیان ملاقات کے بعد کیا گیا۔
’ہم نے پاکستان۔ ایران سرحد پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک مشترکہ ریپڈ ایکشن فورس بنانے پر اتفاق کیا ہے‘۔ صدر روحانی کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا جب سرحد کی دونوں جانب ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں کشیدگی دیکھنے میں آرہی ہے۔
پاک۔ایران سرحدی علاقے سیستان بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑی سلسلے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں ایرانی سکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے۔
وزارت اعظمی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد عمران خان کا یہ پہلا دورہِ ایران ہے۔
یہ دورہ ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب بلوچستان میں پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملے میں 14 اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد اسلام آباد کی جانب سے حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی ایران میں موجودگی کا بیان سامنے آیا۔
ملاقات کے بعد عمران خان نے کہا: ’دونوں ملکوں کے فوجی سربراہ مل بیٹھ کر سکیورٹی تعاون پر تفصیلی بات چیت کریں گے ۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سلسلے میں مزید کوئی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔
’ہمیں یقین ہے کہ دونوں ملک دہشت گردی پر مبنی سرگرمیوں کے لیے اپنی زمین استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ ہم اپنی زمین سے ایران کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق، مارچ میں ایرانی صدر حسن روحانی نے سیستان بلوچستان میں ایرانی انقلابی گارڈز پر حملے میں 27 ہلاکتوں کے بعد پاکستان سے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
ایران کا دعوی تھا کہ حملہ کرنے والا خود کش بمبار پاکستانی تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری جیش العدل نامی گروہ نے قبول کی تھی، جس کے بارے میں تہران کا دعوی ہے کہ وہ پاکستانی علاقوں میں موجود اپنے ٹھکانوں سے کارروائیاں کرتا ہے۔
ہفتے کو پاکستان کی جانب سے جاری بیان میں بلوچستان میں حملہ کرنے والی ’دہشت گرد تنظیموں‘ کی ایرانی علاقوں میں تربیتی کیمپوں اور پناہ گاہوں کی موجودگی کے ثبوت ہونے کا دعوی کیا گیا تھا۔
پاکستانی صوبہ بلوچستان میں مذہبی شدت پسند گروہوں کے ساتھ ساتھ علیحدگی پسند نسلی مسلح گروہ بھی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔