ہم بیرون ملک پاکستانیوں کے حوالے سے سیاسی نعرے لگا لگا کر تھکتے نہیں ہیں۔ ہر حکومت یہ دعوی کرتی ہے کہ پاکستان سے باہر رہنے والے اس سے بےمثال محبت کرتے ہیں اور وہ ان کے لیے راستے میں پلکیں بچھانے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔
عمران خان کی حکمراں جماعت بیرون ملک پاکستانیوں میں بالخصوص اس وجہ سے بھی مقبول ہے کہ پاکستان تحریک انصاف دوسری جماعتوں کے مقابلے میں دیار غیر میں موثر تنظیم سازی کر کے بہت سے ایسے گروپس کو اپنے سیاسی حلقے میں شامل کر پائی جو خود کو ہمیشہ بے یارو مددگار سمجھتے تھے۔ اس کے علاوہ عمران خان کی شخصیت جواں سال پاکستانیوں کے لیے بہرحال خاص مقناطیسیت رکھتی تھی۔ اس وجہ سے تحریک انصاف کا حلقہ اثر سرحدوں سے پار غیر معمولی طور پر نشونما پایا۔
عمران خان کے ذاتی پراجیکٹس جس طرح شوکت خانم کینسر ہسپتال اور نمل یونیورسٹی وہ اہداف ثابت ہوئے جن پر بیرون ملک پاکستانیوں کی ہمدردیاں اور چندے طلب کیے جا سکتے تھے۔ ایک طویل عرصے سے ملک سے باہر رہنے کا فائدہ یہ بھی تھا کہ پیسے والے بااثر خاندان جو ملکی سیاست میں یا کاروبار میں منافع بخش داخلے کی امید رکھتے تھے اب ایک سیاسی پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو سکتے تھے۔
ابھی بھی تحریک انصاف کے سب سے جوشیلے جیالے پاکستان سے باہر ملتے ہیں۔ وطن سے دور ہونے کا ایک فائدہ یہ ضرور ہے کہ یہاں کے تباہ کن طوفان دور سے محض وقتی مسائل نظر آتے ہیں۔
بدقسمتی سے پچھلے کئی مہینوں سے بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے پاکستان کی تاریخ کے بدترین حالات بننے کے باوجود کوئی موثر لائحہ عمل ترتیب ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ پیسے والے بیرون ملک پاکستانی ان حالات سے متاثر نہیں ہو رہے۔ روپے کی گرتی ہوئی ساکھ اور سٹاک مارکیٹ سے لے کر ڈالر، پاؤنڈ کے اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری پر حیران کن منافع کمانے والے شاید اس درد کو محسوس نہ کر سکیں جو چھوٹے چھوٹے پراجیکٹس پر کام کرنے والے یا دیہاڑی دار پاکستانی بیرون ملک نوکریاں ختم جانے کی وجہ سے سہہ رہے ہیں۔
یہ حقیقت ایک ایسا خوفناک رخ اختیار کر گئی ہے کہ چھپائے نہیں چھپتی۔ سٹیٹ بینک اپنی رپورٹ میں یہ ماننے پر مجبور ہو گیا ہے کہ ابھی تک ایک لاکھ سے زائد بیرون ملک پاکستانیوں کی نوکریاں جا چکی ہیں۔ ان نوکریوں پر انحصار کرنے والے خاندان اگر اوسطا ڈیڑھ درجن افراد پر مبنی ہیں تو تقریبا 12 لاکھ لوگ اس وقت ان نوکریوں کے جانے کی وجہ سے بدترین مشکلات کا شکار ہیں۔
ان میں وہ افراد شامل نہیں ہیں جو بیرون ملک دوسرے طریقوں سے گئے تھے اور جن کا سرکاری ریکارڈ میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس طرح کی لیبر فورس کا حجم سرکاری اعداد و شمار میں شمار کئے جانے والے پاکستانیوں سے تین گناہ زیادہ ہے۔ ملا کر تقریبا 30 لاکھ سے زائد پاکستانی بیرون ملک رزق کمانے کی پابندی کا براہ راست نشانہ بنے ہیں۔
یہ سب اس کے علاوہ ہیں جنہوں نے باہر جانے کے لیے اپنی تمام جمع پونچی استعمال کی تھی اور اب ان کو بتایا جا رہا ہے کہ باہر کو کھلنے والا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ حکومتی تخمینے خود یہ مانتے ہیں کہ تقیربا ایک لاکھ کے قریب ممکنہ نوکریاں اب مہیا نہیں ہوں گیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے دوست ممالک کی طرف سے نوکریوں کے ویزوں پر پابندی خارجہ پالیسی کا ایک ایسا چیلینج ہے کہ جو کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر ہونے والی خلاف ورزیوں کی طرح سرخیاں تو نہیں بناتا لیکن اس سے کئی زیادہ گھمبیر صورت حال پیدا کر رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق جس بے دردی سے بیرون ملک کام کرنے والے نکالے جا رہے ہیں اگر رفتار یہی رہی تو پاکستان کے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر چار بلین ڈالر کی کمی کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ایک ایسی حکومت جس نے پچھلے دو سال میں قرضے لینے کا کوئی ذریعہ نہیں چھوڑا اور جو حکمران ہر وقت غیرملکی کرنسی گن کر معاشی ترقی یا تنزلی کے پیمانے بناتی ہے اتنا بڑا دھچکا کیسے برداشت کرے گی؟ دفاعی ضروریات کو ہی لے لیں۔ اخبارات میں چھپے ہوئے فوجی سربراہ کے بیان میں خود انحصاری کے حوالے دیے گئے ہیں۔ قوم کو ایک مرتبہ پھر بتایا گیا ہے کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے بغیر ہم طویل المدت دفاعی منصوبہ بندی نہیں کر سکتے۔
قوم تو اس فارمولے سے بخوبی واقف ہے۔ پاکستان کا ہر وہ شخص جو اپنے ہاتھ سے کماتا ہے اور ریاست کی جیبیں کاٹنے کی بجائے اپنے جبے میں ہاتھ ڈال کر پیسے نکالتا اور خرچ کرتا ہے جانتا ہے کہ خود انحصاری کتنی بڑی نعمت اور مانگ تانگ کر گزارہ کرنا کیسی زحمت ہے۔ اصل مسئلہ ریاست کے امور کا ہے۔ اسے چلانے والوں کی چمک دمک، رہن سہن اپنی خدمت پر معمور وسائل کی ریل پیل اور اگلی نسلوں کی لش پش کے لیے تو سب کچھ مہیا کیا جاتا ہے۔ مگر اصل معاملات کو چلانے کے لیے وسائل صرف قرضے یا باہر سے بھیجا جانے والا زرمبادلہ ہی ہے۔
یقینا آپ بیرون ملک سے آنے والی سرمایہ کاری کے ذریعے معیشت کو اس توانائی سے نواز سکتے ہیں جس سے خود انحصاری رواں دواں ہوتی ہے۔ مگر جب اپنا سرمایہ کار اپنی مارکیٹ میں پیسہ نہیں ڈالے گا تو باہر سے خونخوار منافع خوروں کے علاوہ صاف ستھری انوسٹمنٹ کون لائے گا؟ ان حالات میں ترسیلات زر کی اہمیت چوگنا ہو جاتی ہے۔
ہمارے لیے بیرون ملک ایک نوکری کا جانا بھی ایک دھچکا ہے یہاں پر تو لاکھوں فارغ کر دیے گئے ہیں۔ بعض ممالک میں تو گردن سے پکڑ کر نکال دیا گیا ہے۔ حیرانی ہے کہ پاکستان میں اس پر کوئی بحث نہیں۔ کسی کا دل خون کے آنسو نہیں رو رہا۔ کوئی قومی مفادات کا بین نہیں ڈال رہا۔ کوئی خاص اجلاس طلب نہیں کیے گئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بیرون ملک پاکستانیوں کا یہ حصہ جو غریب اور متوسط طبقے کی نمائندگی کرتا ہے کسی کھاتے میں لکھا ہی نہیں گیا۔
یاد رہے کہ ہم نے ان تمام لوگوں سے ہر مشکل وقت میں مدد طلب کی ہے۔ سیلاب آتے ہیں تو ان کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ ڈیم بنانا ہو تو ان کا رخ کرتے ہیں۔ ان سے ہر قسم کی قربانی ملک کے نام پر مانتے ہیں۔ اب لاکھوں لوگ دھکے کھا رہے ہیں اور ہمارے نظام میں ان کو تسلی تک دینے کی سکت نہیں ہے۔
لگتا ہے کہ ہمیں سمندر پار پاکستانیوں سے محبت نہیں تھی بلکہ ان کی خون پسینے کی کمائی کی طلب تھی۔ اب جب ان کی کمائی ختم ہوئی ہے تو ہماری محبت بھی دم توڑ گئی ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے روزگار کا جانا ایک قومی بحران ہے اور اس پر قومی بحث کا نہ ہونا ایک قومی المیہ ہے۔