ٹوئٹر پر چل رہے ٹرینڈز ایسے ہیں کہ یہاں ان کا ذکر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ وہ القابات ہیں جو کبھی شرفا اپنی زبان سے ادا کرنا تو درکنار سننا بھ پسند نہیں کرتے تھے۔
بھلا ہو گرتی ہوئی اقدار کا کہ یہ الفاظ سوشل میڈیا کی زینت بن گئے ہیں۔ یقین نہ آئے تو آپ خود ٹویٹر ونڈو کھول لیجیئے، جہاں آپ کو طرح طرح کے گندے الفاظ پر مبنی ٹرینڈ نظر آئیں گے۔ اس بات سے انکار نہیں کہ معاشرے میں بسنے والے سب افراد ایک جیسے نظریات، ایک جیسی فکر اور ایک جیسے خیالات کے حامل نہیں ہوتے۔
معاشرہ تو دور کی بات ایک گھر میں رہننے والے تمام افراد کبھی کسی معاملے میں کسی ایک بات پر متفق نہیں ہوتے تو کیا اختلاف رائے کی صورت میں فرد کو آزادی حاصل ہے کہ متضاد آرا رکھنے والوں کی جان، مال، عزت و آبرو کے ساتھ جو چاہے کرتا پھرے۔
کہا جاتا ہے کہ اگر واقعی یہ جاننا ہو کہ کوئی کتنا تہذیب یافتہ ہے تو اس کو غصے کی حالت یا کسی سے اختلاف رائے کا اظہار کرتے ہوئے دیکھ لیں کیونکہ یہ وہ مواقع ہیں جب انسان اپنی اصلیت دکھا دیتا ہے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بحیثیت قوم ہم بھی ٹوئٹر اور دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر دنیا کو اپنی اصلیت دکھا رہے ہیں۔ بے ہودہ اور غیراخلاقی الفاظ استعمال کرکے ہم دوسروں کی نہیں بلکہ خود اپنی تذلیل کا سامان کر رہے ہیں ۔
دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے برعکس ٹوئٹر کے بارے میں یہ ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ اسے استعمال کرنے والے سنجیدہ مزاج اور معلومات حاصل کرنے کے شوقین ہوتے ہیں لہذا ان کا انٹلیکچول معیار بھی اعلی پائے کا ہوتا ہے۔ تاہم ہم نے اس تاثر کو غلط ثابت کرکے دنیا کو دکھا دیا کہ ہم جب چاہیں جس فورم کو چاہیں اپنی ذہنی پسماندگی اور گرتی ہوئی اخلاقی اقدار سے آلودہ کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہمارے لیے کسی کی بہن بیٹی کو برے القاب سے پکارنا کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ ہمارا سیاسی نظریہ سو فیصد درست ہے اور جس نظر سے ہم کسی معاملے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں بس وہی حقیقت ہے باقی سب بکواس ہے۔
ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہمارا اختلاف کسی معاملے پر فرد واحد سے ہوتا ہے اور ہم بلا جھجھک اس کی ماں، بہن، بیٹی کو گھسیٹ لیتے ہیں۔ اور ہم انصاف پسند اتنے ہیں کہ اگر کوئی ہماری بہن بیٹی کے لیے یہ القاب استعمال کرے تو ہمارے منہ سے جھاگ نکل آئے گی، سوئی ہوئی غیرت امڈ آئے گی اور ہم اس کی جان لینے کے درپے ہو جائیں گے۔
بہرحال اختلاف رائے ایک حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں مگر اختلاف رائے کا بہترین ذریعہ وہ دلائل ہیں جو حقائق و شواہد کی روشنی میں دیئے جاتے ہیں۔ اختلاف رائے میں غیراخلاقی زبان، اور بد تہذیبی کا مظاہرہ تو وہ کرتا ہے جو دلائل سے عاری ہوتا ہے۔ یقین جانیے، ٹوئٹر پر جس طرح کے ٹرینڈز ان دنوں پاکستان میں چل رہے ہیں، وہ محب وطن پاکستانیوں اور احساس و شعور رکھنے والوں کے لیے انتہائی قابل تشویش ہیں۔
ہمارے نوجوان اپنے سیاسی قائدین کی محبت میں اس قدر اندھے ہو گئے ہیں کہ صحیح غلط اور بھلے برے کی تمیز کھو بیٹھے ہیں۔ کسی ایک سیاسی جماعت کے حامی اگر مخالفین کے لیے گھٹیا ٹرینڈ بناتے ہیں تو مخالف جماعت کے حامی مزید گھٹیا ٹرینڈ بنا کر بازی لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ٹوئٹر گھٹیا پن، بدتہذیبی اور بداخلاقی کے فروغ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
ان گھٹیا ٹرینڈز کا حصہ بننے والوں کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ اگر یہ کام وہ خود سے کر رہے ہیں تو اس پر فخر نہیں بلکہ شرم آنی چاہیے اور اگر وہ کسی کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں تو یاد رکھیں آپ کھلونے کی طرح استعمال ہو رہے ہیں۔