ترکی نے اتوار کو ایران کی جانب سے ترک صدر رجب طیب اردوغان کے خلاف ’ناشائستہ زبان‘ استعمال کرنے کی مذمت کی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایران کا بیان ایک متنازع نظم کے بعد سامنے آیا جس میں ایران کے شمال مغربی صوبوں کو آذربائیجان کا حصہ بتایا گیا تھا۔ ایران اور ترکی کے درمیان بڑے پیمانے پر معاشی تعلقات قائم ہیں تاہم مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے کئی علاقوں میں وہ ایک دوسرے کے حریف بھی ہیں۔
ترک صدر نے جمعرات کو قریبی اتحادی آذربائیجان کا دورہ کیا تھا۔ وہ نگورنوکاراباخ کے متنازع علاقے پر چھ ہفتے تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد آذربائیجان کی فتح کے سلسلے میں ہونے والی فوجی پریڈ دیکھنے کے لیے گئے تھے۔
دورے میں انہوں نے ایک نظم پڑھی جس کے بارے میں ایران کا کہنا ہے کہ وہ ایران کی آذری اقلیت میں علیحدگی پسندی کو ہوا دے سکتی ہے۔ آذری اقلیت زیادہ تر ایران کے شمال مغربی صوبوں میں آباد ہے، ان صوبوں کی سرحد آذربائیجان اور آرمینیا کے ساتھ ملتی ہے۔
جمعے کو ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ترک صدر اردوغان کو نہیں بتایا گیا تھا کہ انہوں نے باکو میں جو کچھ پڑھا وہ غلط تھا اور اس کا تعلق دریائے اراس کے شمالی علاقوں کی ایران سے زبردستی علیحدگی سے ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایرانی حکام نے ایران میں ترکی کے سفیر کو طلب کر کے صدر اردوغان کے الفاظ کو ایرانی معاملات میں مداخلت اور ناقابل قبول قرار دیا تھا، جس کے جواب میں ترکی نے ایرانی سفیر کو طلب کے ایرانی دعوے کو بے بنیاد قرار دیا۔
ہفتے کو ترکی کے صدارتی کمیونیکیشن ڈائریکٹر فاہریتن آلتن نے ایک بیان میں کہا: ’ہم ایک نظم کے معاملے میں اپنے صدر اور ملک کے بارے میں استعمال کی گئی ناشائستہ زبان کی مذمت کرتے ہیں۔ نظم کا جان بوجھ کر سیاق و سباق سے ہٹ کر مطلب لیا گیا۔‘
ترک صدارتی کمیونیکیشن ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ نظم میں آرمینیا کی جانب سے آذربائیجان کے علاقوں پر قبضے کی وجہ سے متاثر ہونے والے افراد کے جذبات کی عکاسی کی گئی اور اس میں ایران کا کوئی حوالہ موجود نہیں تھا۔