یہ بھی صوبہ پختونخوا میں تواتر کے ساتھ چلنے والی ایک معمول کی پولیو مہم تھی، لیکن آغاز کے چند گھنٹوں بعد ہی دارالحکومت پشاور کے ایک نواحی علاقے سے چند بچوں کی طبیعت کی ناسازی کی اچانک اطلاع آئی۔ ان بچوں کو فوراً ہسپتال پہنچایا گیا۔ پھر افواہوں کا طوفان آیا، جس نے میڈیا اور والدین دونوں کو ہی متاثر کیا۔
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق چند گھنٹوں میں 25 ہزار بچوں کو پشاور کے تین بڑے ہسپتالوں میں لایا گیا۔ بعض مشتعل افراد نے ماشو گگر کے علاقے میں بنیادی صحت مرکز کی عمارت میں توڑ پھوڑ کی اور اسے نذر آتش بھی کر دیا۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی گردش کر رہی تھی، جس میں ایک شخص کو دیکھا گیا، جو ہسپتال میں بچوں کو زبردستی لیٹنے اور بے ہوش ہونے کے لیے کہہ رہا تھا۔ پولیس کے مطابق اس شخص کو گرفتار بھی کرلیا گیا، جس کا نام نذر محمد ہے اور جس کا تعلق ماشوخیل علاقے سے بتایا گیا ہے۔
پولیو کے قطرے پینے سے مبینہ طور پر بعض بچوں کے بیمار ہونے کی خبر سے جو افراتفری پیدا ہوئی وہ آج کل کے جدید سوشل میڈیا دور میں افواہوں کے برق رفتاری سے پھیلنے اور ان پر قابو پانے میں حکام کو درپیش مسائل کی ایک عمدہ مثال ثابت ہوئی۔
خیبر پختونخوا ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے کوآرڈینیٹر کیپٹن (ریٹائرڈ) کامران آفریدی نے بچوں کی طبیعت کی خرابی سے متعلق اطلاعات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ سوموار کا واقعہ ایک منظم سازش تھی، جس کا مقصد پولیو مہم کو نقصان پہنچانا تھا۔ حکام کو اخباری کانفرنسوں میں خود ویکسین پی کر ثابت کرنا پڑا کہ ان کے کوئی منفی اثرات نہیں ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کامران آفریدی نے کہا کہ ’بہت ہی منظم انداز میں چند سکولوں سے صحت مند بچوں کو ہسپتال بھیجا گیا اورعلاقے کی مساجد میں اعلانات بھی کروائے گئے جبکہ جعلی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر بھی لگائی گئیں، محض افواہیں پھیلا کر معاملے کو طول دیا گیا جس سے پولیو مہم اور سرکاری خزانے کو بڑا نقصان پہنچا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کامران آفریدی نے بتایا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ایک خاتون بھی اپنے بچوں کو ہسپتال بھیجنے کو تیار تھیں تاہم رشتہ داروں کے سمجھانے پر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ دوسری جانب بچے بھی ٹی وی دیکھ کر ناسازی طبیعت کی شکایت کرنے لگے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت علی یوسفزئی نے پشاور میں میڈیا کو بتایا کہ اس واقعے کے پیچھے سیاسی عوامل کارفرما تھے لیکن انہوں نے اس کی مزید تفصیل نہیں بتائی۔ اگر ان کی بات درست ہے تو کیا پولیو اب صحت سے بڑھ کر سیاسی مسئلہ بن گیا ہے؟
افواہ کسے کہتے ہیں؟
معلوماتی اور مواصلاتی ٹیکنالوجی پر کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے بائیٹس فار آل کے کنٹری ڈائریکٹر شہزاد احمد کے مطابق ’مخصوص حالات میں مخصوص حوالے سے کی جانے والی غلط بات افواہ کہلاتی ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ افواہ عمومی طور پر منفی خبر ہوتی ہے اور اس کا اثر بھی منفی ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پشاور کا واقعہ افواہ کے پھیلائے جانے اور اس کے منفی اثرات کی عمدہ مثال ہے۔
افواہ کیسے پھیلتی ہے؟
انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں شعبہ سماجیات کے سربراہ ڈاکٹر حاضراللہ کے مطابق پاکستان جیسے روایتی معاشرے میں معلومات بغیر تصدیق کے آگے بڑھا دی جاتی ہیں۔ ’کسی سائنسی ثبوت کی ضرورت محسوس کیے بغیر لوگ سنی سنائی بات پر یقین کرتے اور اسے آگے بڑھا دیتے ہیں اور یوں ایک خاص مرحلے پر یہ افواہ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔‘
شہزاد احمد نے کہا کہ بعض لوگوں کے پاس معلومات کی تصدیق کے ذرائع نہیں ہوتے جبکہ بعض لوگ ایسے ذرائع رکھنے کے باوجود سنی سنائی معلومات کی تبلیغ کرتے ہیں۔
ڈاکٹر حاضراللہ نے کہا کہ چونکہ پولیو سے متعلق معاشرے میں ایک منفی تاثر موجود ہے، اس وجہ سے بھی بعض لوگ معلومات کے غلط یا صحیح ہونے کی پرواہ کیے بغیر اسے آگے بڑھا دیتے ہیں۔
افواہ نقصان دہ ہے!
کامران آفریدی نے تصدیق کی کہ اس واقعے سے پولیو ویکسین پلانے کی مہم کو نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اوپر تلے پانچ کامیاب مہمات کی صورت میں پشاور کو پولیو کے وائرس سے پاک کیا جاسکتا ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اب ایسا ہوتا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ایک پولیو مہم پر حکومت تقریباً چالیس لاکھ روپے خرچ کرتی ہے۔ بین الاقوامی امدادی ادارے پہلے ہی پولیو ویکسین کی مہمات کے لیے دی جانے والی گرانٹ میں سو ملین ڈالرز کی کمی کر چکے ہیں جبکہ آئندہ سال اس میں اتنی ہی مزید کمی کا امکان ہے۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ گرانٹ میں کمی کے باعث حکومت کو پولیو ویکسین کی مہمات کے لیے قرض لینا ہوگا جو سرکاری خزانے پر غیرضروری بوجھ ہوگا۔
والدین کیا کہتے ہیں؟
پولیو مہم کے حوالے سے ان افواہوں سے صرف خیبرپختونخوا ہی متاثر نہیں ہوا، بلکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی اس کے اثرات دیکھے گئے۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون خانہ مہوش عباس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پشاور کے واقعے سے ان کے ذہن میں شکوک ضرور پیدا ہوئے ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ وہ اپنی ایک سال کی بچی کو پولیو کے قطرے نہ پلانے کا رسک نہیں لے سکتیں۔ ’اس واقعے سے شروع میں وہ بہت خوف زدہ ہوئیں لیکن آخر میں ثابت ہوگیا کہ وہ سب جھوٹ تھا۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر جو کچھ چلتا ہے بہتر ہے کہ پہلے اسے غلط معلومات مانیں اور کسی دوسرے ذریعے سے تصدیق کے بعد اسے قبول کریں۔
کامران آفریدی کو ادراک ہے کہ ’آئندہ پولیو ویکسین کی مہمات چلانا مشکل ہوگا، اس سے کچھ والدین پر منفی اثر ضرور پڑا ہوگا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے انکشاف کیا کہ اس واقعے کے اگلے روز پشاور کے بعض نواحی علاقوں میں پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
پولیو ورکرز کی مشکلات کا کیا ہوگا؟
پشاور میں پولیو کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر صوبے کے مختلف اضلاع میں پولیو ورکرز کا کہنا ہے کہ انھیں بچوں کو پولیو قطرے پلانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پشاور میں انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار اظہار اللہ نے محاذ انسداد پولیو میں مصروف چند پولیوں ورکرز سے بات کی اور ان کی مشکلات جاننے کی کوشش کی۔
باجوڑ کے علاقے ماموند میں سرگرم پولیو ورکر ضیاء الاسلام نے فون پر بتایا کہ صبح جب وہ مہم کے لیے گھر گھر جاتے تھے تو لوگوں کی طرف سے مخلتف باتیں سننے کو ملتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ صرف 17 گھرانوں نے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جبکہ باقی نے انکار کیا۔
ضیا سے جب پوچھا گیا کہ والدین کن وجوہات کی وجہ سے انکار کر رہے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ ایک تو وہ پشاور واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پولیو کی وجہ سے ان کے بچوں کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
ضیاء الاسلام کے مطابق: ’والدین اب کہہ رہے ہیں کہ وہ بچوں کو پولیو پلانے دیں گے لیکن کسی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں ذمہ دار آپ لوگ ہوں گے۔‘
اسی طرح ضلع دیر میں ایک خاتون پولیو ورکر نے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر بتایا کہ ان کی ڈیوٹی بنیادی مرکز صحت کے اندر ہے اور انہوں نے بہت کم لوگوں کو یہاں آتے دیکھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بعض خواتین تو بچوں کو لا رہی ہیں لیکن بہت سے ایسے گھر ضرور ہیں جہاں پر والدین شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’ہماری ٹیمیں مختلف جگہوں پر گئی ہیں لیکن انکاری والدین کی شرح گذشتہ مہم کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا واقعی پولیو ورکرز کو کوئی سکیورٹی خدشات ہیں تو انہوں نے بتایا کہ حکومت کو چاہیے کہ انہیں ماضی کے مقابلے میں اب زیادہ سکیورٹی دی جائے۔
یہ خدشات کوئی زیادہ بے بنیاد بھی نہیں ہیں۔ ایسی ہی ایک مہم کے دوران گذشتہ دنوں خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں پولیو ٹیم کی سکیورٹی پر مامور ایک پولیس اہلکار کو قتل کر دیا گیا تھا۔
وزیراعلیٰ کے دفتر سے جاری ہونے والے پریس ریلیز کے مطابق انہوں نے اس واقعے کا نوٹس لیا ہے اور صوبائی پولیس سربراہ سے اس بارے میں رپورٹ بھی طلب کی ہے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پولیو بابر عطا نے اپنی ٹویٹ میں یہ بھی بتایا کہ پشاور واقعے میں تقریباً 200 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ ایف آئی آر کی ایک کاپی نمائندہ انڈپینڈنٹ اردو نے بھی دیکھی، جو ایک بنیادی صحت سہولت مرکز کے سربراہ ڈاکٹر نصرت اللہ شاہ کی مدعیت میں درج کی گئی ہے، جسے پولیس کے مطابق مشتعل ہجوم نے مبینہ طور پر نذر آتش کیا تھا۔
ان تمام مسائل کے باوجود خیبر پختونخوا ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے کوآرڈینیٹر کیپٹن (ریٹائرڈ) کامران آفریدی نے کہا کہ ’حکومت پولیو کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے اور اس کے حصول کا واحد طریقہ پولیو ویکسین پلانا ہی ہے۔‘