ایران نے امریکہ کے ساتھ اپنے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے کشیدگی کے باوجود فورڈو کے مقام پر زیرزمین جوہری تنصیبات میں ایک اور ایٹمی سائٹ کی تعمیر شروع کردی ہے۔
اس بات کا انکشاف امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی جانب سے جمعے کو حاصل کردہ سیٹلائٹ تصاویر کے بعد ہوا۔
ایران نے سرکاری سطح پر فورڈو میں کسی بھی نئی تعمیر کا اعتراف نہیں کیا ہے۔ مغربی ممالک نے اس جوہری تنصیبات کا کھوج 2009 میں لگایا تھا، جوعالمی طاقتوں اور تہران کے درمیان 2015 کے ایٹمی معاہدے سے قبل کی بات ہے۔
اگرچہ تعمیر ہونے والی اس عمارت کا مقصد ابھی تک واضح نہیں ہے تاہم یہ نو منتخب صدر جو بائیڈن کے حلف لینے سے قبل ٹرمپ انتظامیہ کے آخری ایام میں امریکی حکومت کے لیے ممکنہ طور پر نئی پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔
ایران پہلے ہی جولائی میں ایک پراسرار دھماکے کے بعد نتنز جوہری مرکز کی تعمیر نو میں مصروف ہے۔ تہران نے اس دھماکے کو ’سبوتاژ‘ حملہ قرار دیا تھا۔
مڈل بیری انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل سٹڈیز سے وابستہ اور ایران پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار جیفری لیوس نے کہا: ’اس سائٹ میں ہونے والی کسی بھی تبدیلی کا بغور مشاہدہ کیا جا رہا ہے اور یہ اس بات کی نشاندہی کرے گی کہ ایران کا جوہری پروگرام کس سمت بڑھ رہا ہے۔‘
اے پی کے مطابق اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے فوری طور پر اس پیش رفت پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی، جس کے انسپکٹرز جوہری معاہدے کے تحت ایران میں موجود ہیں، نے بھی فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
فورڈو سائٹ پر تعمیراتی کام کا آغاز ستمبر کے آخر میں ہوا تھا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی جانب سے میکسار ٹیکنالوجیز سے حاصل کردہ سٹلائیٹ تصاویر میں تہران سے تقریباً 90 کلومیٹر دور شیعہ فرقے کے مقدس شہر قم کے قریب اس سائٹ کے شمال مغربی حصے میں یہ نئی تعمیرات دیکھی جا سکتی ہیں۔
11 دسمبر کو ایک سٹلائیٹ سے لی گئی تصویر میں درجنوں ستونوں والی ایک عمارت کی بنیاد کے لیے کھدائی دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح کے ستون زلزلے والے علاقوں میں عمارتوں کی تعمیر کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں۔
فورڈو کی زیر زمین تنصیبات کے شمال مغربی حصے میں تعمیراتی سائٹ کو ممکنہ فضائی حملوں سے بچانے کے لیے اسے ایک پہاڑ کے اندر گہرائی میں تعمیر کیا جا رہا ہے۔ یہ جگہ فورڈو میں دیگر سائنسی تحقیقی عمارتوں کے قریب ہے۔
ان عمارتوں میں ایران کا قومی ویکیوم ٹیکنالوجی سینٹر بھی شامل ہے۔ ویکیوم ٹیکنالوجی ایران کے یورینیم گیس سینٹری فیوجز کا ایک اہم جزو ہے، جو یورینیئم کو افزودہ کرتی ہے۔
اس ہفتے کے شروع میں ’آبزرور آئی ایل‘ نامی ایک ٹوئٹر ہینڈل نے فورڈو کی ایک تصویر شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ یہ تصویر جنوبی کوریا کے کوریا ایرو سپیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے موصول ہوئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعد میں اے پی نے اس ٹوئٹر صارف تک رسائی حاصل کی جنہوں نے اپنی شناخت اسرائیلی فوج کے ایک ریٹائرڈ سول انجیینئر کے طور پر کی۔ انہوں نے کہا کہ آن لائن موصول ہونے والی دھمکیوں کے باعث ان کا نام شائع نہ کیا جائے۔ دوسری جانب کوریا ایرو سپیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے بھی سیٹلائٹ تصاویر لینے کا اعتراف کیا ہے۔
اس سے قبل صدر ٹرمپ نے 2018 میں یکطرفہ طور پر ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے امریکہ کو نکال کر تہران پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
ٹرمپ نے معاہدے سے دستبردار ہونے میں ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام، اس کی علاقائی پالیسیاں اور دیگر امور کا حوالہ دیا تھا، حالانکہ یہ معاہدے صرف جوہری پروگرام پر مرکوز ہے۔
امریکی پابندیوں میں سختی کے بعد ایران نے آہستہ آہستہ معاہدے کی حدود کو ترک کردیا جس سے تہران اور واشنگٹن کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے اور رواں سال کے آغاز میں دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔ یہ تناؤ اب بھی موجود ہے۔
2015 کے جوہری معاہدے کے تحت ایران نے فورڈو میں یورینیئم کی افزودگی روکنے اور اس کی بجائے اسے ’نیوکلیر، فزکس اینڈ ٹیکنالوجی سینٹر‘ بنانے پر اتفاق کیا تھا۔
جیفری لیوس کے مطابق جوہری معاہدے کے مذاکرات کے دوران امریکہ نے اسے بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا، جبکہ ایران کے سپریم لیڈر نے اسے ایران کے لیے ’سرخ لکیر‘ قرار دیا تھا۔
پہاڑوں سے گھرا ہوا یہ مقام اینٹی ایئرکرافٹ گنز اور دیگر دفاعی آلات سے لیس ہے ۔ یہ ایک فٹ بال کے میدان کے حجم کے برابر ہے جو تین ہزار سینٹری فیوجز رکھنے کے لیے کافی ہے، یہی وجہ تھی کہ امریکی حکام کو یہ شک پیدا ہوا کہ اس کو فوجی مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔
معاہدے کی 3.67 فیصد حد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران اس وقت 4.5 فیصد تک یورینیئم کی افزودگی کر رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ایران ایٹمی اسلحہ بنانے کا انتخاب کرے تو اس کے پاس دو وار ہیڈز بنانے جتنا کم افزودہ یورینیئم کا ذخیرہ موجود ہے۔ ایران طویل عرصے سے اصرار کر رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
اس دوران مبینہ طور پر فوجی مقاصد کے لیے جوہری پروگرام پر کام کرنے والے ایرانی سائنسدان کو تہران کے قریب ایک حملے میں ہلاک کردیا گیا ہے۔ ایران نے اس حملے کے لیے اسرائیل کو مورد الزام ٹہرایا ہے جبکہ اسرائیل نے اس الزام کی ترید کی ہے اور نہ اسے تسلیم کیا ہے۔