رات پنجاب کے کنٹریکٹ اساتذہ نے اسلام آباد میں وزیر اعظم کی رہائش گاہ کے علاقے بنی گالہ کی طرف مارچ کیا، تو پولیس نے انہیں روکنے کے لیے آنسو گیس کا استمعال شروع کر دیا، جس پر مظاہرین دھرنا دے کر وہیں بیٹھ گئے اور ٹریفک جام کر دی۔
ان کا مسئلہ کیا ہے اور یہ اساتذہ چاہتے کیا ہیں؟
مسئلہ یہ ہے کہ پچھلی حکومت نے محکمہ تعلیم میں سال 2014 سے 2018 تک کنٹریکٹ پر بہت سے اساتذہ بھرتی کیے۔ چھ سال ہونے کو أئے مگر تاحال انہیں مستقل نہیں کیا گیا۔
مستقلی میں مشکل کیا ہے؟
حکومت کہتی ہے ہمارے ہاتھ بندھے ہیں۔ وہ ایسے کہ سابقہ پنجاب سرکار جاتے جاتے ایک قانون پاس کر گئی کہ سکیل 16 میں بھرتی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہو گی اور اب تک مستقلی کے منتظر حضرات کو بھی اس مرحلے سے گزرنا ہو گا۔
حکومت کے لیے مسئلہ تو بالکل ہے!
مگر متاثرین کا موقف بھی ایک دم جاندار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ہم NTS کا مقابلہ جاتی امتحان دے کر بھرتی ہوئے ہیں تو اب دوبارہ پبلک سروس کمیشن کا امتحان کیوں دیں۔ پچھلی حکومت نے پبلک سروس کمیشن کو بائی پاس کر کے اگر NTS کے ذریعے ہماری بھرتی کی ہے تو اس غلطی کی سزا 11 ہزار اساتذہ کیوں بھگتیں؟ حکومت سنجیدگی دکھائے تو آرام سے یہ ساری کھیپ مستقل ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان اساتذہ کا کہنا ہے کہ یا تو 2018 پالیسی کی وہ متنازع شق ختم کر دی جائے جو پہلے سے بھرتی شدہ افراد کا گلا دباتی ہے یا پھر وزیر اعلیٰ کی جانب سے حکم نامہ جاری کرکے ان تمام افراد کو مستقل کر دیا جائے۔
کیا ایسا کبھی پہلے ہوا ہے؟
جی تاریخ بتاتی ہے کہ پنجاب میں ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے جب ن لیگ سرکار نے وزیر اعلیٰ کے حکم نامے سے 2009 کے بھرتی شدہ سکیل 16 کے جملہ مدرسین کو مستقل کر دیا تھا۔
اور مزیدار بات یہ ہے کہ مدرسین کی وہ کھیپ بنا NTS یا پبلک سروس کمیشن کے بھرتی ہوئی تھی۔
حال ہی میں کے پی کے میں سکیل 16 کے 36 ہزار مدرسین کو وزیر اعلیٰ کے حکم نامے سے مستقل کر دیا ہے، باوجودیکہ کہ وہاں بھی مستقلی کے لیے پبلک سروس کمیشن کی شرط ہے۔
کیا ملازمت کے مسائل حل کے لیے دھرنا دینا اور سڑکیں بند کر دینا کوئی صائب پالیسی ہے؟
اس کا جواب تو نفی میں ہونا چاہیے، لیکن اس سے یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ ان اساتذہ کو یہ راہ کس نے سجھائی اور دکھائی ہے؟