’اساتذہ کی تیاری پوری ہے، گرم کپڑے بھی رکھے ہیں اور ٹینٹ وغیرہ بھی۔ منصوبہ تو بنی گالہ جانے کا ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچتے ہیں۔ جو اساتذہ اس مارچ میں جارہے ہیں ان کا خیال تو یہ ہے کہ جب تک ان کی نوکری مستقل نہیں کر دی جاتی تب تک وہیں بیٹھیں گے۔ اب دیکھتے ہیں کہ کیا ہوگا؟‘
کاشف شہزاد چوہدری پنجاب گورنمنٹ سکولز ایسوسی ایشن آف کمپیوٹر ٹیچرز کے صوبائی صدر ہیں اور اس مارچ کے حق میں ہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ اساتذہ بنی گالہ کی جانب مارچ کیوں کر رہے ہیں؟
یہ معاملہ دراصل پنجاب کے سیکنڈری سکول ایجوکیٹرز کی غیر مشروط ریگولرائزیشن یا مستقلی کا ہے۔ ان اساتذہ کی نوکری صرف ایک شرط پر مستقل ہوسکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ اساتذہ پبلک سروس کمشن کا امتحان اور انٹرویو پاس کریں، ورنہ مستقل تو کیا نوکری ہی نہیں رہے گی۔
یہ مسئلہ گذشتہ ڈیڑھ برس سے التوا کا شکار ہے اور سات برس سے کانٹریکٹ پر کام کرنے والے سرکاری سکولوں کے اساتذہ نے پنجاب حکومت کو ڈیڑھ سال سے غیر مشروط ریگولرائزیشن کے لیے سمری بھیج رکھی ہے جو اب تک منظور نہیں ہوسکی۔
محمد عمران لاہور کے ایک سرکاری سکول میں 16 ویں سکیل کے استاد ہیں اور نویں، دسویں، گیارہویں اور بارہویں جماعت کے طلبہ کو کمپیوٹر پڑھاتے ہیں۔ عمران نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ وہ بھی اس مارچ کا حصہ بنیں گے۔ 'میں 2014 سے پڑھا رہا ہوں اور کانٹریکٹ پر ہوں۔پانچ سال کا معاہدہ تھا جس میں پانچ سال کے بعد اب تک دو مرتبہ توسیع ہو چکی ہے جبکہ موجودہ توسیع اپریل میں ختم ہو جائے گی۔'
عمران نے بتایا کہ انہوں نے نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس) کا امتحان پاس کرکے یہ نوکری حاصل کی تھی۔ 'یہ حکومت کی پالیسی تھی کہ اس امتحان میں 100 میں سے 50 اور اس سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے سرکاری سکول میں نوکری کے لیے درخواست دے سکتے تھے۔ جب میں نے نوکری کے لیے درخواست دی تو اس وقت دو سیٹیں خالی تھیں جبکہ درخواست گزار 200 سے زائد تھے جن میں سے میرا انتخاب ہوا۔'
بقول عمران: '2014 سے پہلےجتنی بھی بھرتیاں ہوئی تھیں وہ ایسے کسی ٹیسٹ کے بغیر ہوئی تھیں۔ ان تمام اساتذہ کو بغیر کسی شرط کے مستقل کردیا گیا ہے۔میرے جیسے 16ویں سکیل کے اساتذہ جن کی بھرتیاں ٹیسٹ کے ذریعے 2014 سے 2018 تک ہوتی رہی ہیں ان کے لیے اب ایک ایکٹ بنا دیا گیا ہے کہ ہم دوبارہ پبلک سروس کمشن کا امتحان اور انٹرویو پاس کریں گے تو ہمیں مستقل کیا جائے گا اور جو امتحان پاس نہیں کر پائے گا وہ نوکری سے فارغ ہو جائے گا۔'
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ دور حکومت میں ان سے جونیئرز کو بغیر کسی مقابلے کے امتحان کے مستقل کیا گیا، مگر انہیں نہ اس وقت کیا گیا اور نہ ہی اب کیا جا رہا ہے۔ 'وزیر تعلیم مراد راس نے ہم سے کہا تھا کہ وہ ہمیں بغیر کسی امتحان کے مستقل کروائیں گے یہاں تک کہ اب تک اس دور حکومت میں محکمہ تعلیم کے تبدیل ہونے والے پانچ سیکرٹریوں نے بھی ہم سے یہی کہا تھا۔ ڈیڑھ برس تک ہمارے مسئلے کی سمری سرکاری دفتروں میں گھومتی رہی مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اب موجودہ سیکرٹری نے صاف کہہ دیا ہے کہ ہمیں بلک سروس کمشن کا امتحان دینا پڑے گا۔ نوکری کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ اگر امتحان کلیئر نہ ہوا تو نوکری بچے گی یا نہیں۔'
پنجاب ٹیچرز یونین پنجاب کے جنرل سیکرٹری رانا لیاقت بھی کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت سیکنڈری سکول ایجوکیٹرز کی غیر مشروط ریگولرائزیشن میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
’صوبائی حکومت غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ 'گذشتہ ڈیڑھ سال سے غیر مشروط ریگولرائزیشن کے لیے بھجوائی گئی سمری منظور نہیں ہو سکی اور اب پبلک سروس کمیشن سے انٹرویو پاس کرنے کا کہا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے پنجاب بھر میں 11ہزار سے زائد سیکنڈری سکول ایجوکیٹرز و اے ای اوز شدید بےچینی و اضطراب میں مبتلا ہیں۔'
انہوں نے بتایا کہ 'سیکنڈری سکول ایجوکیٹرز این ٹی ایس ٹیسٹ اور محکمانہ انٹرویو کوالیفائی کرکے بھرتی ہوئے۔ ان کے کنٹریکٹ ایگریمنٹ میں ریگولرائزیشن کے لیے دوبارہ پنجاب پبلک سروس کمیشن سے انٹرویو کوالیفائی کرنے کی کوئی شرط نہیں لکھی ہوئی اور نہ ہی بھرتی پالیسی میں یہ شرط موجود تھی، لیکن سابقہ حکومت نے یہ کالا قانون بنا کر 11 ہزار سے زائد سیکنڈری سکول ایجوکیٹرز کا مستقبل تاریک کر دیا ہے۔'
رانا لیاقت نے بتایا کہ اپنی نوکریوں اور مستقبل کو بچانے کے لیے 19 دسمبر کو سیکنڈری سکول ایجوکیٹرز کور کمیٹی اس ناانصافی اور غیر سنجیدہ رویہ کے خلاف ہزاروں اساتذہ سمیت بنی گالہ، اسلام آباد میں وزیراعظم ہاؤس کے سامنے دھرنا دے گی جبکہ پنجاب ٹیچرز یونین اس کی بھرپور حمایت اور دھرنے میں بھرپور شرکت کرے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی وزیر تعلیم سے مطالبہ کیا کہ پنجاب حکومت کو سیکنڈری سکول ایجوکیٹرز کی غیر مشروط ریگولرائزیشن کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا فی الفور حکم دیں تاکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے اساتذہ مطمئن ہو کر اپنے فرائض انجام دے سکیں۔
پنجاب گورنمنٹ سکولز ایسوسی ایشن آف کمپیوٹر ٹیچرز پنجاب کے صوبائی صدر کاشف شہزاد چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'ہمارا مطالبہ ایک ہی ہے اور وہ ہے سیکنڈری سکول ایجوکیٹرز کی مستقلی۔ ہم متعدد بار صوبائی وزیر تعلیم مراد راس سے ملاقات کر چکے ہیں، لیکن افسوس یہ ہے کہ وزیر تعلیم اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ ہمیشہ کہتے ہیں کہ اور محکمے بھی ہیں ان کے ملازمین کو بھی مستقل کرنا پڑے گا۔'
کاشف چوہدری کے مطابق: 'حکومتی وزرا نے اپنے لیے کوئی آرڈینینس پاس کرنا ہو تو راتوں رات ہو جاتا ہے۔ ایکٹ میں تبدیلی بھی ہو جاتی ہے، لیکن باقی اداروں میں کام کرنے والے تو جیسے میرٹ پر ہی نہیں آئے۔ ہم ٹیسٹ دے کر پانچ چھ سو لوگوں میں سے سلیکٹ ہوئے تھے۔ اب سات سات سال کی نوکریوں کے بعد کچھ کی عمر اب اتنی ہو چکی ہے کہ اگر ان کی نوکری چلی جاتی ہے تو وہ کہیں اور نوکری نہیں کر پائیں گے۔ اس ناانصافی کے لیے مارچ کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا تو اساتذہ کا حق ہے۔
اس معاملے پر جب انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی وزیر تعلیم برائے سکول ایجوکیشن کے ترجمان عمر خیام سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ 'سکول ایجوکیشن کی طرف سے اساتذہ کی مستقلی کے مسئلے میں کوئی تاخیر نہیں ہے۔ ہم نے سارا معاملہ کلیئر کرکے سمری آگے بھیج دی ہے جو اب پنجاب کابینہ میں وزارت قانون کے پاس ہے۔'