'گولیوں کی تڑتڑاہت اور دھماکوں کی خوفناک آوازوں سے میں بوکھلا کر نیند سے بیدار ہوا تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ یہ ہو کیا رہا تھا۔'
یہ خیالات تھے نائیجیریا کے بورڈنگ سکول پر حملے کے وقت ہاسٹل میں موجود انس شعیب کے جو ان سینکڑوں طلبہ میں شامل تھے جنہیں حملہ آوروں نے زبردستی سکول سے نکال کر پاس کے جنگل میں جانے پر مجبور کیا گیا۔
انس نے بتایا کہ جنگل کے راستے میں کئی گھنٹے پیدل چلنے کے بعد حملہ آوروں نے انہیں رکنے کا حکم دیا اور خبردار کیا کہ فرار ہونے کی کوشش جان لیوا ہو سکتی ہے۔
انس نے مزید بتایا: ’انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے فرار ہونے کی کوشش کی تو آپ کہیں نہیں جا سکیں گے بلکہ اسی جنگل میں ہی مارے جائیں گے۔‘
11 دسمبر کو شمال مغربی ریاست کاتیسینا کے شہر کانکرا کے گورنمنٹ سائنس سیکنڈری سکول پہ مبینہ طور پر بوکوحرام کے حملے کے بعد 344 طلبہ کو اغوا کر لیا گیا تھا۔
جمعرات کے روز انس شعیب سمیت کئی دوسرے لڑکوں کو سکیورٹی فورسز نے روگو جنگل سے بازیاب کرالیا۔
یہ وسیع جنگل نائیجیریا کی چار ریاستوں پر پھیلا ہوا ہے جہاں شدت پسندوں نے اغوا کیے گئے طلبہ کو چھ دن تک یرغمال بنا کر رکھا۔
اس واقعے نے ملک بھر میں پائے جانے والے عدم تحفظ کے بارے میں غم و غصہ اضافہ کر دیا ہے۔ افریقہ کے سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک میں بوکو حرام اور داعش سے وابستہ مقامی شدت پسند تنظیمیں اس سے پہلے بھی کئی بار سکولوں پر حملے کر چکی ہیں۔
2014 میں چبوک قصبے میں لڑکیوں کے سکول پر بھی اسی طرح کے حملے میں 270 سے زیادہ طالبات کو اغوا کر لیا گیا تھا جن میں کچھ تاحال لاپتہ ہیں۔
گھر واپسی پر کانکرا میں اپنے گھر کے قریب دوستوں کے ساتھ فٹ بال کھیلتے ہوئے انس شعیب مسکرا رہے تھے۔
لیکن ان کی یہ مسکراہٹ اس وقت غائب ہو گئی جب وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ پیش آنے والے حالات بیان کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا: ’میں واقعی خوفزدہ تھا کیوں کہ میں نہیں جانتا تھا کہ ہم کہاں جارہے ہیں۔‘
زمین کی طرف دیکتھے ہوئے انس نے بتایا کہ کیسے اغوا کار ان کے ساتھیوں کو بری طرح مارتے پیٹتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ اغوا کاروں کی تعداد کتنی تھی تاہم لڑکوں کو بہت کم کھانا دیا جاتا تھا اور بعض اوقات ہم جنگل میں پتے کھانے اور تالابوں سے گندا پانی پینے پر مجبور ہو جاتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رہا ہونے والے ایک اور طالب علم نے جمعے کو رہائی کے چند گھنٹوں بعد روئٹرز کو بتایا کہ اغوا کاروں نے ابتدائی طور پر انہیں جنگل میں چھپا کر رکھا تھا۔
’لیکن جب انہوں نے جیٹ طیارے دیکھے تو انہوں نے اس جگہ کو تبدیل کیا اور ہمیں مختلف جگہوں پر چھپاتے رہے۔ انہوں نے ہمیں کم کم ہی کھانا دیا۔‘
جمعے کو ہی ان لڑکوں کو گورنر اور اس کے بعد صدر سے ملاقات کے لیے لے جایا گیا۔
واقعے سے متعلق مزید تفصیلات ابھی تک واضح نہیں ہیں۔ شدت پسند تنظیم بوکو حرام نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی تھی لیکن اس کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ یہ رہائی تاوان ادا کر عمل میں لائی گئی ہے۔
آزاد ہونے والے ایک اور طالب علم 14 سالہ محمد بیلو گھر لوٹ کر خوش ہیں۔
انہوں نے کہا 'اب جب میں گھر واپس آیا ہوں تو میں کھیل جاری رکھوں گا اور اپنی مرضی کے مطابق کام کروں گا۔ میں بہت خوش ہوں۔‘
لیکن حملے نے والدین کو خوف زدہ کردیا ہے۔
شعیب کے والد نے روئٹرز کو بتایا تھا کہ ان کا بیٹا 13 سال کا ہے اور جب تک ’مناسب سکیورٹی‘ کا انتظام نہیں کیا جاتا تب تک وہ اپنے بیٹے کو سکول نہیں بھیجیں گے۔
کاتیسینا کے گورنر امین بیلو مساری نے کہا ہے کہ ریاست بھر کے سکولوں میں سکیورٹی کو مزید سخت کیا جائے گا۔