’کرونا وبا کی وجہ سے جہاں ایک طرف شہد کی پروڈکشن 40 فیصد تک کم ہوئی ہے، وہیں دوسری جانب ہماری 35 فیصد تک مکھیاں خوراک کی باقاعدہ ترسیل نہ ہونے کی وجہ سے یا تو ہلاک یا متاثر ہوگئی ہیں۔‘
پشاور کے ترناب فارم، جسے انٹرنیشنل شہد مارکیٹ کہا جاتا ہے، میں شہد ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری شیر زمان کرونا وائرس کی وجہ سے پریشان ہیں۔
شیر زمان، جو خود بھی اسی مارکیٹ میں ایک دکان چلا رہے ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 30 ہزار ٹن شہد سالانہ پیدا ہوتا ہے جس میں بیری کا شہد زیادہ تر بیرون ممالک خصوصاً مشرق وسطیٰ کو برآمد کیا جاتا ہے جبکہ پشاور کی مارکیٹ میں تقریباً 18 ہزار ٹن شہد پیدا ہوتا ہے۔
’مارکیٹ میں بیری کے ایک من شہد کی قیمت ایک لاکھ 20 ہزار تک تھی لیکن پروڈکشن کی کمی، لاک ڈاؤن اور گاہکوں کی کمی کی وجہ سے اس کی قیمت اب 60 ہزار روپے تک آگئی ہے۔‘
شیر زمان نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ہمارے بی کیپرز شہد کی مکھیوں کی کالونیز یا باکس صوبے کے مختلف مقامات پر رکھتے ہیں، تاہم لاک ڈاؤن کے دوران ٹرانسپورٹ کے مسائل کی وجہ سے ہمارے مزدور ان کالونیوں تک وقت پر نہیں پہنچ سکے۔
ساتھ ہی انہوں نے بتایا: ’پروڈکشن کم ہونے کی دوسری وجہ گاہکوں کی کمی بھی ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہماری برآمدات میں بھی کمی آئی اور مقامی سطح پر بھی گاہک کم ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ہم نے قیمتیں بھی کم کی ہیں۔‘
اس مارکیٹ سے شہد بیرون ممالک بھی برآمد کیا جاتا ہے جس میں سعودی عرب سر فہرست ہے۔
شیر زمان کے مطابق 2015 اور 2019 کے درمیان ہر سال شہد کے تقریباً 600 کنٹینرز بیرون ممالک برآمد کیے جاتے تھے، تاہم 2020 کے اختتام تک کرونا کی وجہ سے تقریباً 120 کنٹینرز بیرون ممالک برآمد کیے گئے ہیں۔
پروڈکشن کے ساتھ ساتھ مکھیوں کی بڑی تعداد ہلاک بھی ہوئی ہے۔ شیر زمان کہتے ہیں کہ شہد کی مکھیوں کو مصنوعی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے لیکن چونکہ کالونیز یا باکس مختلف جگہوں پر پڑے تھے اور بی کیپر ان کالونیوں تک وقت پر نہیں پہنچ سکے تھے، جس کی وجہ سے 30 فیصد تک مکھیاں متاثر ہوئیں۔
مکھیوں کے مرنے کے حوالے سے محکمہ زراعت خیبر پختونخوا کے شعبہ مگس بانی کے ماہر محمد قاسم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ٹریڈرز کی بات ٹھیک ہے کہ ایک تو برآمدات میں کمی آئی ہے اور ساتھ میں مکھیوں کی تعداد میں بھی کمی آئی ہے۔
تاہم قاسم کے خیال میں اس کی ایک وجہ کسانوں کی جانب سے فصلوں پر استعمال ہونے والی غیر رجسٹرڈ کیڑے مار ادویات بھی ہیں۔
’کسان لوگوں کے کہنے پر کوئی بھی کیڑے مار دوا اٹھاتے ہیں اور فصلوں پر اس کا چھڑکاؤ کر دیتے ہیں۔ مکھیوں کی خوراک چونکہ یہی پھول ہوتے ہیں، لہذا ان کو انفیکشن ہو جاتا ہے اور وہ مر جاتی ہیں جبکہ کوئی ایک مکھی اس انفیکشن کو کالونی میں لا کر پوری کالونی کو ڈسٹرب کرتی ہے۔‘
پشاور کی شہد مارکیٹ کیسے بنی؟
پشاور کی شہد کی مارکیٹ میں چار سو کے قریب چھوٹی بڑی دکانیں ہیں جہاں بیر، پھلائی، کیکر، پلوسہ، سپیرکئی، شفتالو اور سورج مکھی کا شہد ملتا ہے۔
ان میں سے بیر کا شہد باقی سب سے مہنگا بھی ہے اور اس کو زیادہ تر بیرون ملک برآمد کیا جاتا ہے۔
مارکیٹ میں بیر کا شہد فی کلو 1800 تک جبکہ پلوسہ کی قیمت پانچ سو روپے فی کلو تک ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری شیر زمان بتاتے ہیں کہ پشاور کے ترناب فارم میں شہد کا کاروبار ’افغان جہاد‘ کے بعد، جب پناہ گزین یہاں پر آئے، سے شروع ہوا اور بنیادی طور پر یہ کاروبار کرنے والے پہلے لوگ افغان پناہ گزین ہی تھے۔
’1978 میں جب افغان پناہ گزین جنگ کی وجہ سے پشاور آکر آباد ہوئے تو امریکی ادارے یو ایس ایڈ کی جانب سے کچھ پناہ گزینوں کو شہد نکالنے کی ٹریننگ دی گئی اور ہر ایک کو مکھیوں کے تین چار باکس بھی دیے گئے، تب سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور اب یہ ایشیا کی بڑی صنعتوں میں شمار کی جاتی ہے۔ ان پناہ گزینوں کے لیے مکھیاں آسٹریلیا اور اٹلی سے منگوائی گئی تھیں۔‘
شہد کی مکھیوں کو پالنے اور اس کے کاروبار سے وابستہ تاجروں کی تنظیم کے مطابق اس کاروبار سے اب تقریباً 13 لاکھ لوگ وابستہ ہیں، جن میں افغان سمیت خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ شہد کی اتنی بڑی صنعت حکومت کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس صنعت سے صوبے سمیت پورے ملک کو بہت بڑا زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے تاہم اس کو باقاعدہ ایک صنعت کی شکل ابھی تک نہیں دی گئی ہے جبکہ مگس بانی سے وابستہ افراد کے لیے ٹریننگ کا بھی کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں کیا جاتا، جس کی وجہ سے شہد کی مکھیوں سے شہد کے علاوہ ہم تین چار دیگر پروڈکٹس نہیں نکال سکتے۔