پولیس اور بھارت کے نیم فوجی دستوں سمیت سکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد سری نگر سے 85 کلومیٹر دور کپواڑہ کے صنعتی تربیتی انسٹی ٹیوٹ (آئی ٹی آئی) کی جانب جانے والی سڑکوں پر خاردار تاروں کے ساتھ مستعد کھڑی تھی۔
آئی ٹی آئی میں پانچ حلقوں میں ہونے والے انتخابات کی گنتی کی جا رہی تھی۔ بھارتی حکومت کی جانب سے پانچ اگست،2019 کو کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کے بعد پہلی بار ضلعی ترقیاتی کونسل (ڈی ڈی سی) کے لیے کرال پورہ، ریڈی چوکیبل، ہہامہ، ڈرگملہ اور قادر آباد میں انتخابات کو علاقے میں ترقی، صحت، تعلیم اور عوامی کاموں کو مکمل کرنے والی حکومت کی ایک نئی امید کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
280 ڈی ڈی سی نشستوں کے لیے 28 نومبر سے آٹھ مرحلوں میں پولنگ شروع ہوئی تھی جو 19 دسمبر تک جاری رہی۔ شہریوں اور مقامی میڈیا کی بڑی تعداد کی خاموشی کے درمیان ایک خاتون کو انتخابی نتائج کے روز اپنی قسمت کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔
باٹرگام کپواڑہ سے انتخابات میں حصہ لینے والی 36 سالہ ثومیہ صدف ڈرگملہ سے آزاد امیدوار ہیں اور ان کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے مظفر آباد سے ہے۔ ثومیہ 2010 میں عمر عبداللہ حکومت کی طرف سے شروع کی جانے والی عسکریت پسندوں کی بحالی سکیم کے تحت اپنے شوہر عبد المجید کے ہمراہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر منتقل ہو گئی تھیں۔
ان کے شوہر 1990 کی دہائی کے دوران پاکستان گئے تھے۔ ثومیہ ایسی درجنوں پاکستانی خواتین میں شامل ہیں جو اپنے شوہروں اور اہل خانہ کے ہمراہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر منتقل ہو چکی ہیں۔
پولنگ کی گنتی کے لیے قائم سٹیشن کے باہر ثومیہ اپنے شوہر کے ساتھ موجود تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب سے ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی ہے، ہم پورا دن یہاں انتظار کر رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں نے جہاں سے انتخاب لڑا ہے وہاں کی گنتی کو کیوں روکا گیا۔‘
گنتی کے طویل انتظار کے بعد گنتی مرکز سے کچھ کلومیٹر دور اپنے گھر واپس جانے سے پہلے ثومیہ پولنگ سینٹر میں اس سوال کے ساتھ داخل ہوئیں کہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ گنتی دوبارہ کب شروع ہوگی۔ یہ سننے کے بعد کہ ریاستی الیکشن کمیشن کے اگلے احکامات تک یہ عمل روک دیا گیا ہے وہ افسردہ چہرے کے ساتھ اپنے گھر کی جانب روانہ ہو جاتی ہیں۔
گھر پہنچنے کے بعد انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ریاستی الیکشن کمیشن نے ایک نوٹس کے ذریعے ان کے انتخابی حلقے میں گنتی بند کردی ہے۔ کمیشن کے مطابق امیدوار نے انتخابی دستاویزات جمع کروانے کے دوران فارم چھ میں’غلط معلومات‘ فراہم کی ہیں۔
اپنے اہل خانہ کے ساتھ لان میں بیٹھے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ثومیہ کا کہنا تھا: ’مجھے وہاں کوئی وجہ نہیں بتائی گئی تھی لیکن گھر پہنچ کر مجھے نوٹس جاری ہونے کے بارے میں معلوم ہوا۔ سمجھ نہیں آتی کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ انتخابات میں میری فتح سے خوف زدہ ہیں۔ گذشتہ 10 سال سے میں نے یہاں کپواڑہ کے لوگوں کی بہتری کے لیے ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے کام کیا ہے۔ انہیں چاہیے تھا کہ وہ نامزدگی کے دوران مجھے مطلع کرتے، میں نے اپنی انتخابی مہم پر بہت زیادہ رقم خرچ کی ہے۔‘
ثومیہ کے اہل خانہ کے ایک رکن نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ’ہم ابھی جشن منا رہے ہوتے، ہم امید کر رہے تھے کہ اگر ہم الیکشن جیت گئے تو ہم فتح کی ریلی نکال سکیں گے۔‘ ثومیہ کا کہنا ہے کہ وہ انتظار کریں گی کہ آگے کیا ہوتا ہے۔’میں ڈپٹی کمشنر آفس جا کر اس مسئلے کے بارے میں مزید استفسار کروں گی۔‘
ثومیہ کے علاوہ ایک اور امیدوار شازیہ اسلم نے بھی حاجن- اے ڈی ڈی سی حلقے سے انتخاب میں حصہ لیا۔ ان کا تعلق بھی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے مظفر آباد سے ہے۔ شازیہ کے شوہر محمد اسلم شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے علاقے بنیاری حاجن سے تعلق رکھتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسلم نے انڈپینڈنٹ اردو سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے نامزدگی فارم جمع کروانے کے لیے تمام رسمی کارروائیاں پوری کیں، مجھے نہیں معلوم کہ حاجن اے حلقے میں گنتی کا انعقاد کیوں نہیں کیا گیا، میں وہاں گنتی سینٹر میں موجود تھا۔‘
سری نگر سے شائع ہونے والے روزنامہ گریٹر کشمیر کی ایک رپورٹ کے مطابق دیگر خواتین امیدواروں نے یہ کہتے ہوئے ناراضگی کا اظہار کیا ہے کہ ان سب کو ایک امیدوار کی وجہ سے یرغمال کیوں بنایا گیا؟
اس کے علاوہ ایک بھارتی نیوز پورٹل نے ریاستی الیکشن کمشنر کےکے شرما کے حوالے سے بتایا کہ ’اگر حکومت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی ان دونوں خواتین کی شہریت کے کاغذات کو چیک کرنا چاہتی تھی تو انہیں کاغذات نامزدگی داخل کرنے اور انتخابی مہم چلانے کی کیسے اجازت دی گئی؟' انہوں نے کہا کہ حکام کو 'حال ہی میں' ان کے بارے میں معلوم ہوا ہے اور وہ اس معاملے پر بات چیت کریں گے۔