اچھا خاصا سماجیات پڑھ رہا تھا، وہاں کارل مارکس سے تعارف ہوگیا۔ پھر دوستوں کے ساتھ لائبریری کے پیچھے پریم گلی بیٹھنے لگا، جہاں یہ دوست کلاس روم سے زیادہ اچھی معلوماتی باتیں کرتے تھے۔ کینٹین کے قریب سے گزرو تو یہی لگتا تھا کہ پمفلٹ بنانے، پروگرام ترتیب دینے اور سیاسی مباحثوں میں غرق ان لڑکوں کے سیگریٹ اور کتابیں سانجھی ہیں۔
سبحان کراچی یونیورسٹی کی طلبہ سیاست میں کامریڈ سبحان کے نام سے مشہور تھا۔ گلگت کے پڑھے لکھے خاندان سے تعلق تھا لیکن اس کی ہر پہچان پر کامریڈی بھاری تھی۔ پڑھائی میں بےحد نکما مگر بلا کا ذہین، جیب ابا کی بھیجی پاکٹ منی سے بھری ہوئی اور دماغ منتشر خیالات کا مینا بازار۔
یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
کامریڈ سبحان اپنے درجن بھر چیلوں کے ساتھ سوائے کلاس روم کے ہر جگہ نظر آتا تھا۔ کامریڈوں کا یہ گروپ تقریر کے فن کا ماہر لیکن طلبہ تنظیم سازی میں خاصا ناکام تھا۔ ان کے نعرے عجیب تھے، ان کے مطالبات باغیانہ اورآئیڈلز بچکانہ لگتے تھے۔
نئی گھاس کی طرح اگنے والے ان کامریڈوں کو مذہبی گروہ بندی سے نفرت تھی، بلوچستان میں مزاحمتی گروپس سے شدید لگاؤ تھا۔ یہ گلگت بلتستان میں ریاست پاکستان کی عدم دلچسپی سے شدید نالاں تھے۔ انہیں شمالی علاقوں اور کشمیر کا نتھی کیا جانا کَھلتا تھا۔ یہ کراچی میں فوج کی موجودگی پر بولتے تھے، یونیورسٹی میں مسلح رینجرزسکیورٹی کے خلاف تھے۔
کامریڈوں کی نئی نئی تنظیم تھی، لڑکیاں گنتی کی چند ایک ہی تھیں یا شاید وہ بھی ان کامریڈوں کی بہن، کزن دوست وغیرہ ہی ہوں گی۔ بائیس پچیس برس کے یہ لڑکے فی الحال یہ منوانے کے مرحلے سے گزر رہے تھے کہ ان کی کامریڈی کو سنجیدہ لیا جائے۔
انہی دنوں کامریڈ سبحان نے اپنی طلبہ تنظیم کی رکنیت کے لیے کراچی یونیورسٹی کے قریب ایک شادی ہال میں پروگرام رکھا۔ اس پروگرام میں مختلف جامعات کے گلگت، بلتی، بلوچ، پشتون اور کشمیری طلبہ تنظیموں کے نوجوان رہنما بھی بلائے گئے۔
گرما گرم تقریروں اور نعروں کے شور میں اعلان ہوئے کہ پاکستان کے نام پر مزید بلیک میل نہیں ہوں گے، ظلم کی سیاہ رات اب ڈھلنے کو ہے، زنجیریں پگھلنے کو ہیں، مزدوروں کا راج ہوگا، طلبہ ایوانوں کے رکھوالے بنیں گے، زمین زادے اپنی مٹی کے مالک ہں نگے وغیرہ وغیرہ۔
یونیورسٹی کے دور کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ یہاں کلاس کے اندر اور باہر سیکھنے کا عمل ایک رومانس کی طرح بے ترتیب ہی رہتا ہے۔ اس دور کو گزرے بھی عرصہ گزر گیا شاید یوں یاد بھی نہ آتا لیکن بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق قائد کریمہ بلوچ کی کینیڈا میں اچانک موت نے کامریڈوں کے اس گروہ کی یادیں جھلکیوں کی صورت نظروں کے سامنے روشن کر دیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کامریڈ سبحان ان دنوں کس کی رہنمائی کررہے ہیں؟ کامریڈوں کے اس انقلاب اور ٹوٹتی زنجیروں کا کیا بنا؟ یہ ابھی کچھ ماہ قبل کی بات ہے، سبحان نے اپنے دل کے چیک اپ کے لیے اسلام آباد کا رخ کیا تو برسوں بعد ملاقات ہو گئی۔ میں کامریڈ سبحان سے ملنے گئی تھی لیکن میرے سامنے گورنمنٹ کانٹریکٹر سبحان اللہ بیٹھا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس نے بتایا کہ یونیورسٹی ختم ہوتے ہی نوکری سب سے بڑا چیلنج تھی۔ تنظیم کے وہ ساتھی جنہوں نے پریم گلی کی زمین پہ بیٹھ کر منشور لکھا تھا غم ِ روزگار میں لگ گئے، جو لڑکے نئے آئے وہ اپنے حساب سے تنظیم چلانے لگے ، تنظیم وقت اور پیسہ دونوں کھاتی ہے۔ یہاں سر پہ یہ تلوار لٹک رہی تھی کہ نوکری نہ ملی تو کراچی رہنے کا جواز نہیں اور واپسی ہوئی تو گلگت کی وہی محدود سی زندگی۔
میں نے کریدا کہ گلگت بلتستان کے پہاڑوں سے اٹھنے والے سرخ انقلاب کے داعی ایسے کیسے نوکری کی تلاش میں ڈھیر ہوگئے۔ سبحان نے کہا اب میں سرکار کے پراجیکٹس بنانے کے ٹھیکے لیتا ہوں۔ فلاں پہاڑ سے فلاں وادی تک کئی کلومیٹر کی سڑک میری تعمیراتی کمپنی کے کریڈٹ پر ہے۔
میں نے پوچھا کہ بھائی کامریڈی کیا ہوئی؟ اس نے کہا کہ تین بیٹے ہیں، بیگم سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر ہے۔ میری نظریں اس شعلہ بیاں، پرجوش مقرر، جبر کے اس نظام سے باغی، ظالم کے خلاف بے خوف کامریڈ کو ڈھونڈ رہی تھیں جسے اب تک انقلابی سیاسی رہنما بن جانا تھا۔ لیکن سامنے جو بیٹھا تھا اسے کے پاس اپنے تعمیراتی منصوبے گنوانے کے سوا کوئی بات نہ تھی۔
یعنی تم نے فریڈرک اینگلز کے اس دیوانے کا گلا برسوں پہلے گھونٹ دیا تھا؟ میں نے سبحان ٹھیکیدار سے کامریڈ سبحان کا پتا پوچھنے کے لیے آخری حربہ آزمایا۔ فریڈرک اینگلز معاشرتی برابری اور مساوات کے انقلابی نظریات پیش کرنے والا جرمن فلاسفر تھا جس کے سنہری اقوال کامریڈ سبحان موقعے کی مناسبت سے جملے میں فٹ کرلیا کرتا تھا۔
سبحان شاید سکردو میں کسی سرکاری ہاسٹل کی تعمیر کے منصوبے کا قصہ سنانے لگا تھا۔ چڑ کر کہنے لگا: ’کیوں کہ فریڈرک اینگلز کے اس دیوانے کو شروع میں ہی سمجھ آگئی تھی کہ یہاں انقلاب کی بات خالی جیب ممکن نہیں اور خالی جیب انقلابیوں کو نوٹ کی سپورٹ دینے والے کب خرید لیتے ہیں، کیسے استعمال کر لیتے ہیں یہ بکنے والوں کو بھی علم بھی نہیں ہوتا۔ گلگت میرا مسئلہ ہے، بلوچوں کا استحصال میرا مسئلہ ہے کسی معاون، این جی او یا کسی دوسرے تیسرے ملک کا نہیں۔
ہم وطن جس شکوے کو غداری کا نام دیں، ہم وطن جس جدوجہد کو بغاوت کہہ دیں اس کی انٹرنیشنل مارکیٹ ویلیو دیکھو کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے۔ جیسے بندے غائب ہوتے ہیں ایسے ہی انقلاب بھی اٹھا لیے جاتے ہیں۔ تم نے لاپتا افراد کی تلاش میں نکلے کامریڈ تو بہت دیکھے ہوں گے لیکن اپنے اصل کاز کے گمشدہ ہوجانے پر حیران پریشان کامریڈ کم کم ہی دیکھو گی۔