کراچی کا مزاحمتی ہپ ہاپ

آج کڑوی سچی سنانے کے لیے کراچی کے ہپ ہاپرز کا سہارا لینا پڑا کیونکہ کالم لکھنے کے اپنے بڑے نخرے ہیں، سچ ہو، اپنی رائے ہو، زبان و بیان اچھا ہو، سرسری نہ ہو مگر مختصر ہو فلاں ہو فلاں نہ ہو۔

کراچی  میں  بارش کے بعد کا ایک منظر (اے ایف پی)

بے وزن قافیے، عجیب و غریب تُک بندی، زبان زیادہ تر بازاری، راگ دھن تال کی بجائے مشینی موسیقی اور گانے کی بےسروپا عکس بندی، یہ کراچی سے ابھرنے والا فری سٹائل ہپ ہاپ ہے۔ دنیا بھر کے لونڈے لپاڑے اسے ریپ میوزک بھی پکارتے ہیں۔

جب سیاہ فام امریکی 1970 میں اپنی شناخت ڈھونڈنے میں گم تھے، انہی افسردہ زمانوں میں نیو یارک کے میوزک کلبز میں نہایت سستے نرخ پر ڈی جے کا کام کرنے والے سیاہ فاموں نے اپنے اندر کا غبار نکالنے کے لیے ایک نئی ترکیب ڈھونڈی۔ یہ ڈی جے تیز موسیقی کے درمیان ایک دو جملوں کا اضافہ کرتے۔

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں

 

ہپ ہاپ ایجاد کرنے والے ان سیاہ فام ریپرز کی جیبیں خالی تھیں یا گلی محلے کی زبان میں کہہ لیجیے یہ فُقرے تھے۔ ہپ ہاپ میوزک کو مقبول ہونے میں زیادہ وقت نہ لگا مگر اس کے ذریعے کمانے اور خود کو گلوکار منوانے میں ان ہپ ہاپرز کو خاصا وقت لگ گیا۔

آج ولایتی ہپ ہاپ یا ریپ میوزک میں عشق معشوقی، لڑکیوں کا حسن و جلوہ، بےہودگی اور چھچھورپن کا غلبہ ہے مگر بھارت اور اب پاکستان، بلکہ یوں کہیے کہ کراچی میں یہ ریپ میوزک غصہ تھوکنے، اپنی بھڑاس نکالنے، گانے ہی گانے میں فرعون صفت سماج اور حکمرانوں کو گالی دینے کا ذریعہ بن گیا ہے۔

کراچی کے ریپرز، ہپ ہاپرز آج وہ موسیقی تخلیق کر رہے ہیں جو اس قسم کی کھلی ڈُلی گلوکاری اور شاعری کی اصل بنیاد ہے، یعنی ’شکایت‘۔ کراچی کے ریپ گانے والے کسی بھی گلوکار کی ویڈیو یوٹیوب پر ڈھونڈ لیں، یہ گانے نہیں نوحے پڑھ رہے ہیں۔

کراچی کے ریپرز گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں اپنا بچپن کھو جانے پر نالاں ہیں، یہ کچرے کے ڈھیر دبے اور سیلابی پانی میں ڈوبے کراچی کو ڈھونڈتے ہیں، یہ کرسیوں پر بیٹھے ہر نام نہاد لیڈر، چیئرمین اور قائد سے جواب مانگ رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک ویڈیو میں مبشر راجپوت مزار ِقائد اعظم کے گنبد کے نیچے کھڑے گا رہے ہیں:

میرا کراچی پورے ملک کو ہے پالے، پھر بھی یہاں کھلے پڑے ہیں نالے

دکھ کی صدا سن لے کوئی تو بچالے، میرا کراچی پورے ملک کو ہے پالے

ہمارا لیاری تو خیر سے ایسے مزاحمتی ہپ ہاپ کا گڑھ ہے۔ ادھر ہی چیل چوک لیاری کی پیداوار نو سالہ وقاص بلوچ ہیں۔ نو سال بھی کوئی عمر ہے بھلا یہ سمجھنے کے لیے کہ کلفٹن کے محل والوں نے لیاری کی تنگ گلیوں میں پنپتی وفاداری کا بھی پاس نہ رکھا، ووٹ کے بدلے میں انہیں گینگ وار دی گئی۔

وقاص بلوچ عرف ’تھاوزنڈ‘ اپنے ہی لکھے ایک ریپ گانے میں کہتا ہے:

پہلے کراچی ہے فرض، میں لکھتا اسی پہ گاتا

سنو گے تو کروں گا عرض، بس بس سر درد

کرو ہینڈز اپ، ڈز، ڈز

ان سر میں گائے جانے والے گِلے شکووں میں آپ کوئی معنی تلاش کریں گے تو ناکامی ہوگی۔ یہ بول بڑے الجھے ہوئے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے کراچی کے مسائل کو سب سیاست دان مل کر گنجلک بنا چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیاری اگر بلوچ مزاحمتی ہپ ہاپ پیدا کر رہا ہے تو اورنگی ٹاؤن کے لڑکے بھی دلہنوں کے غراروں پہ ستارے ٹانک ٹانک کر بیزار ہیں۔ یہ لڑکے دو روپے فی تکیہ غلاف سی سی کر تھک چکے ہیں۔ سائٹ اور کورنگی کی فیکٹریوں کا ایندھن بن کر اب ان کی ہڈیاں جوانی میں ہی سرمہ ہوئی جاتی ہیں۔

اورنگی کے لڑکوں نے بھی ہپ ہاپ کا سہارا لینا شروع کیا ہے۔ ہارون عرف ہیری کے گانے اورنگی کی گلیوں میں رُلتی نوجوانی کی ایک سسکی ہے۔

چھوٹی سی یہ بات کسی کو بھی طعنہ نہیں، پورا نچوڑ لیا پھر کہتے گھبرانا نہیں

کراچی کے لیے آج اتنا کافی ہے، زیادہ کچھ بول گیا اس کے لیے معافی ہے

سہیل احمد سندھی زبان میں ریپ میوزک کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں بھی کراچی ہی مطلوب و مقصود ہے:

یہ کراچی کنھنجی، اسان جی

سجی سندھ کنھنجی، اسان جی

کراچی سے ابھرتا ہپ ہاپ کراچی کی سیاست سے الگ نہیں لگتا۔ طلحہ انجم کا ہپ ہاپ بیک وقت کراچی سے پیار کرتا ہے اور اسی کراچی کو طعنے بھی دیتا ہے۔ یوٹیوب پر صرف کراچی یا پاکستان ہی نہیں بھارت سے بھی کئی نوجوانوں نے طلحہ انجم کے اس ہپ ہاپ ’کراچی میرا‘ کو خوب سراہا:

کراچی ہی میری رہائش تھی، پریڈی پولیس لائن سے نمائش چوک

کراچی بھی ایک آزمائش تھی

ایسا لگے مجھے جیسے گیم ذاتی میرا، میری قبر پہ بھی لکھ دینا کراچی میرا

آج کڑوی سچی سنانے کے لیے کراچی کے ان ہپ ہاپرز، ریپرز کا سہارا لینا پڑا کیونکہ کالم لکھنے کے اپنے بڑے نخرے ہیں، سچ ہو، اپنی رائے ہو، زبان و بیان اچھا ہو، سرسری نہ ہو مگر مختصر ہو فلاں ہو فلاں نہ ہو۔

رشک آتا ہے ہپ ہاپ کرنے والوں پہ، جو ان پہ بیت گئی سو کہہ دی، جو کراچی کے لیے محسوس کیا وہ گا کر سنا دیا، جو بارش میں ڈوبے تو سسٹم پہ لعنت بھیجی اور پھر کوئی دوسرا ہپ ہاپ بنا لیا۔ آخر میں برنس روڈ  کے ایک نوجوان ریپر کے چار بول سنتے جائیں اور گاتے جائیں:

میری گلی پہ بات آئے گی تو میں بولے گا

تیرے باپ کا کراچی جو تو توڑے گا

جو بھی کرسکتے ہو کر کے دکھاؤ

جیسے بھی ہو سکے بس کراچی بچاؤ

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ