قصہ کچھ یوں ہے کہ میں ایک دن کام میں مصروف تھی، چلیں اب آپ سب پڑھنے والوں سے کیسا پردہ، چہرے پر ماسک اور آنکھوں پر کھیرے کی قتلیاں رکھے کچھ مثبت سوچنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اچانک ٹی وی پر ایک جانی پہچانی آواز آئی اور جو بات میرے کانوں سے ٹکرائی وہ سن کر خود کو حسین اور دل و دماغ کو بھلی سوچوں سے بھرپور کرنے ساری کی ساری کوششوں پر ایسا پانی پھرا کہ پوچھیں ہی نا۔
بس جلدی سے کھیرے ہٹا کر پرے پھینکے اور دیدے پھاڑ پھاڑ کر یقین کرنے کے لیے ٹی وی دیکھنے میں لگ گئی۔ اب جس جملے نے میرے ہوش اڑے وہ تھا ’مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کبھی میں نے نہ صرف پارلیمان بلکہ اس سے ہٹ کر بھی کبھی غیر پارلیمانی گفتگو کی ہو۔‘
ساتھ ہی شو میں موجود ایک اور مہمان پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر کو پارلیمانی آداب، شائستگی اور سیاسی وفاداری پر لیکچر دینے پر تلے ہوئے تھے۔ نئے پاکستان کے ماضی قریب کے وزیر اطلاعات و نشریات اور حال ہی میں کابینہ کی سائنس تبدیل ہونے کے بعد وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری آنکھوں کے سامنے تھے۔
میرے سنے اور دیکھے میں اتنا فرق تھا کہ کچھ دیر تک تو سیاسی بصیرت اور صحافت کے تجربے پر شک سا ہونے لگا کیوں کہ ٹی وی پر فواد چودھری کی باتیں بالکل ایسی تھیں جسے کوئی یہ بول رہا ہو کہ شیکسپیئر نے انگریزی ہماری فلم سٹار میرا سے سیکھی ہو۔
خیراب ایک نظر وزیر اخلاقیات، نہیں میرا مطلب ہے وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی شخصیت اور کیریئر پر۔ کہنے کو تو موصوف ایک نامی گرامی وکیل خاندان سے تعلق رکھتے ہیں مگر ایک مرتبہ نجی محفل میں ہم کچھ غیر رسمی گفتگو کر رہے تھے کہ اچانک بات نکل آئی خواتین پر کیے جانے والے گھریلو تشدد سے متعلق قوانین سازی کی کیونکہ وہ پیپلز پارٹی کا دور تھا اور اس سلسلے بڑی تیزی سے قانون سازی کی جا رہی تھی۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ فواد چوہدری نے ٹانگ پر ٹانگ رکھتے ہوئے انتہائی پرسکون انداز میں مردانہ تشدد کا دفاع کیا۔ یہ بات سن کر میرے جسم میں جسے پتنگے سے دوڑ گئے ہوں اور قوت سماعت جیسے کچھ دیر کے لیے چلی گئی ہو۔
اگر بات کی جائے پاکستانی سیاست میں انتہائی تیزی سے ترقی کرنے والے سیاست دان کی تو موصوف کا نام سرفہرست شمار کیا جاتا ہے۔
ابھی چند ہی روز کی بات ہے فواد چوہدری ایک ٹاک شو میں عمران خان اور پی ٹی آئی کی حکومت کے حق میں دلائل دے رہے تھے۔ پہلے اینکر نے ان کو اتنا بھڑکایا کہ فواد نے زبان سے پوری قوت لگا کر ثابت کر دیا کہ ان سے زیادہ عمران خان کا کوئی خیر خواہ تاریخ میں پیدا ہی نہیں ہوا، پی پی پی اور مسلم لیگ کے سارے حمایتی پاکستان کے دشمن ہیں، کرپٹ ہیں اور چور ہیں۔
پھر پروگرام کنڈکٹ کرنے والے حضرت کے چہرے پر کچھ شرارت کے ساتھ ذرا سا تکبر نمودار ہوا، وہ بولے: ’ٹھیک ہے ہم نے آپ کی ساری باتوں پر یقین کرلیا ہے جناب اب میں ماضی کی ایک جھلک دکھاتا ہوں۔‘
جسے ہی ماضی کے ٹاک شو کی جھلک ختم ہوئی فواد نے بڑے ہی اطمینان سے یہ کہہ کر اینکر کا سارا غرور خاک میں ملا دیا کہ ’یہ کون سی اچنبھے کی بات آپ نے مجھے دکھا دی؟ سیاست میں ایسا ہوتا ہے، کل جس نے ہمیں نوازا ہم ان کے لیے بول رہے تھے، ہاں ہم ان ساتھ تھے۔ آج میں پی ٹی آئی کا ایک ذمہ دار وزیر ہوں اور اسی حیثیت سے آپ سے بات کر رہا ہوں۔‘
جب اینکر نے ان سے پوچھا ’تو اس کا مطلب ہے حالات کی تبدیلی کی صورت میں آپ کا خان صاحب کے ساتھ ہونا مشکوک ہے؟‘ تو وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بولے کل کس نے دیکھا ہے؟
وزارت اطلاعات جانے کے بعد سے ٹی وی پر ان کے درشن کم ہوگئے ہیں۔ لگتا ہے کہ وہ اپنی سائنسی معلومات تازہ کر رہے ہیں، لیکن حیرت اس بات کی ہے کہ ان کی وقتی خاموشی کا توڑ سیاست دانوں نے خود ایک دوسرے کو صاحب اور صاحبہ کہہ کر پکارنے سے نکالا ہے۔ شاید وہ نہیں چاہتے کہ ٹی وی چینل پر بوریت کہیں سے بھی حاوی ہو۔