یہ نا قابل یقین لگتا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں موجود کروڑوں شائقین خود کو ویسٹروس کی خیالی دنیا میں پا رہے ہیں، لیکن ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جب کسی نے ’گیم آف تھرونز‘ کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ یہ 2011 کی بات ہے جب گیم آف تھرونز کا پہلا سیزن ایچ بی او سے نشر ہوا اور اب اس کا آٹھواں اور آخری سیزن چل رہا ہے لیکن اب گیم آف تھرونز تقریباً ہر گھر میں ایک جیتا جاگتا کردار بن چکا ہے۔
وہ لوگ جو رابرٹ جارڈن کی 15 کتابوں پر مشتمل ’وقت کا پہیہ‘ پڑھنے کی کبھی زحمت نہیں کریں گے وہ بھی گیم آف تھرونز کے دیوانہ وار فینز ہیں، وہ ویسٹروس کے ہر ایک کردار، جنگجو گھرانوں، ڈریگنز، جنگی نعروں اور ظالم بادشاہوں سے واقف ہیں۔
دنیا بھر میں اس کی فین فالوونگ ناقابل بیان حد تک ہے، اتنی ذیادہ کہ جتنا شاید اس کے لکھاری جارج آر مارٹن نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا جب انہوں نے یہ کتابیں لکھنا شروع کی تھیں۔
شاید آپ جانتے ہوں گے کہ گیم آف تھرونز ’آ سونگ آف آئس اینڈ فائر‘ سیریز کی پہلی کتاب تھی جو آج سے 20 سال پہلے شائع ہوئی تھی۔
اس کے بعد ’ونڈز آف ونٹر‘ اور پھر 2011 میں اس شو کے پہلے سیزن کے نشر ہونے کے کچھ ہفتے بعد ’ ڈانس ود ڈریگنز‘ نامی کتابیں لکھی گئیں۔
اس سلسلے کی چھٹی کتاب اسی ٹی وی شو کی شہرت کی نذر ہو کر تاخیر کا شکار ہو گئی۔ چند ہفتوں میں اب یہ شو اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ جارج مارٹن کی جانب سے اس سلسلے کی ساتویں کتاب بھی جلد ہی منظرعام پر آنے والی ہے، اس کتاب کو’ آ ڈریم آف سپرنگ ‘ کا نام دیا گیا ہے۔
گیم آف تھرونز سیریز کی پہلی کتاب اگست 1996 میں شائع کی گئی تھی۔ 1996 کے سال کو لٹریچر اور فینٹیسی پر مبنی کتابوں کے حوالے سے خصوصی طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔
مشہور پبلشنگ کمپنی ہارپر کولنز کی پبلشنگ ڈائریکٹر جین جانسن کہتی ہیں: ’1990 کی دہائی فکشن کے حوالے سے ایک اچھا عرصہ تصور کیا جاتا ہے۔ میں نے جارج کی کئی مختصر کہانیاں پڑھی تھیں لیکن جارج اتنی طویل فینٹیسی کہانیاں لکھنے کے حوالے سے نہیں جانے جاتے تھے۔‘
بہرحال جارج نے اسی کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور 1993 میں جین کے ڈیسک پر یہ ناول موجود تھا۔ انہیں سائنس اور فکشن کیٹگری کی ایڈیٹوریل ڈائریکٹر کی ذمہ داریاں دی گئیں۔
بہت سی کتابوں کی طرح گیم آف تھرونز کو جارج مارٹن کے آبائی ملک میں پبلشنگ ڈیل اور کاپی رائیٹس معاہدہ نا ملا بلکہ ان کے ایجنٹ رالف (جو 2010 میں انتقال کر چکے ہیں) نے امریکہ اور برطانیہ کے تمام بڑے پبلشرز کو بیک وقت مسودے بھیج دیے۔ کچھ ہی دنوں میں 150 صفحات کا یہ مسودہ بہت سے ایڈیٹرز کے ڈیسک پر موجود تھا۔ جانسن جارج کے کام سے تو واقف تھیں لیکن وہ جارج کو فینٹیسی رائیٹر کے طور پر نہیں جانتی تھیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ: ’میں جانتی تھی وہ کتنے اچھے کہانی نویس ہیں اور میں ان کو اس کیٹیگری میں لکھتا دیکھ کر بہت پرجوش تھی۔ یہ میرے لیے بہت دلچسپی کا باعث تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی اتنے شاندار دس چیپٹرز نہیں پڑھے تھے۔ جب میں دوران مطالعہ اس مقام پر پہنچی جہاں واچ ٹاور میں سرسی اور جیمی کو قابل اعترض حالت میں پانے والے بران سٹارک جیمی کے دھکے کے بعد یقنی موت کی جانب زمین پر آتا ہے۔ میں اس وقت طے کر چکی تھی کہ ہمیں یہ کام ہر صورت کرنا ہو گا چاہے کچھ بھی ہو۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ اس وقت تک تمام برطانوی پبلشرز بھی یہی بات سوچ رہے تھے۔‘
ان 150 صفحات کی بیناد پر ایک نیلامی منعقد کی گئی۔ جانسن کے مطابق یہ کافی سخت مقابلے کا ماحول تھا اور نیلامی جیتنے کے لیے ہارپر کولنز نے اتنی رقم ادا کی جسے سن کر بے یقینی سے آنکھیں ابل پڑیں۔ ہم نے کرسمس لنچ کے دوران سب سے زیادہ رقم بھر کے یہ نیلامی جیت لی گو کہ اب ہم اس رقم سے کئی گنا زیادہ کما چکے ہیں۔
اب تک آئس اینڈ فائر کی دنیا بھر میں 90 ملین کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ یہ یقینی طور پر ایک اچھی سرمایہ کاری تھی۔
جانسن جارج آر آر مارٹن کو ذاتی طور پر بھی جانتی تھی۔ ان کی کئی ملاقاتیں بھی ہو چکی تھیں، وہ کہتی ہیں: ’میں جارج کو کئی بار مل چکی تھی اور انہیں بہت شگفتہ مزاج اور ہنس مکھ انسان پایا۔‘ جانسن خود بھی ایک لکھاری ہیں۔ وہ بچوں اور بالغوں کے لیے 20 سے زیادہ کتابیں لکھ چکی ہیں۔
نیلامی کے سخت مقابلے میں خاتمے کے بعد جارج مارٹن پر لازم ہو چکا تھا کہ اب وہ اس ناول کو ختم بھی کریں، ایسا جانسن کے ساتھ ساتھ ان کے امریکی پبلشر کے لیے بھی بہت ضروری تھا۔ جارج نے شائع ہونے سے قبل اس کتاب میں ایڈیٹوریل درستگیاں اور ضروری ترامیم مکمل کیں۔
آخر کار یکم اگست 1996 کو گیم آف تھرونز منظر عام پر آگیا، اس حوالے سے لوگوں میں کافی وقت سے چہ میگوئیاں کی جا رہی تھیں اور لوگ یہ جاننے کے لیے بے چین تھے کہ جارج مارٹن نے اس فینٹیسی ناول میں کیا لکھا ہے۔ تاہم صاحبان ذوق اس حوالے سے کچھ زیادہ پرامید نہیں تھے، کم سے کم اس وقت تک تو نہیں۔
جانسن کہتی ہیں: ’لارڈ آف رنگز اور ایچ بی او کی جانب سے گیم آف تھرونز سیریز کی فلم سازی کرنے تک تو لوگوں میں فینٹیسی ناولز کے حوالے سے کچھ زیادہ حوصلہ افزا تاثر نہیں پایا جاتا تھا۔‘
’کتابوں کے سٹور والے فینٹیسی ناولز اور کتابوں کو اپنی دکان کے آخری حصے میں رکھتے تھے۔ کچھ وقت لگا لیکن گیم آف تھرونز نے اس صورتحال کو بدل دیا۔2007 سے ہی لوگوں کی جانب سے گیم آف تھرونز کو بطور فلم یا سیریز دیکھنے میں دلچسپی سامنے آنے لگی اور پھر 2009 میں ایچ بی او نے بالاخر معاہدہ کر لیا۔ ہم سب اس بارے میں بہت خوش اور برجوش تھے۔‘
’میڈیا میں اس بارے میں آرٹیکلز لکھے جا رہے تھے اور اسے ’سب سے زیادہ توقعات رکھے جانے والی سیریز ‘ کہا جا رہا تھا۔ لیکن آپ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے تھے کہ یہ تجربہ کامیاب ہوگا۔ یہ جہاز بغیر تیرے ڈوب بھی سکتا تھا لیکن ہم لارڈز آف دی رنگز کی مقبولیت کے دیکھتے ہوئے پرامید تھے کہ اس تجربے سے کم از کم کتابوں کی فروخت تو بڑھ جائے گی۔‘
’اور ایسا ہی ہوا، کتابوں کی فروخت ایک دم بڑھ گئی اور تب سے اب تک اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ میں ان کتابوں کی دیوانی ہوں۔ ان میں موجود ہر کردار، ہر کہانی، مزاح، جنگ و جدل، سیاست سب کچھ بہت سحر انگیز ہے، آپ خود کو خوش قسمت سمجھتے ہیں اگر باقی تمام لوگوں سے پہلے مینو سکرپٹ آپ کے ہاتھ آ جائے۔‘
مینو سکرپٹ کو لے کر ایک اور دلچسپ بات خود کو فینز کہنے والوں کی تنقید ہے جو حق جتاتے انداز میں پوچھتے ہیں انہیں مزید کتنا انتظار کرنا پڑے گا، ایک بار تو لکھاری نیل جے مین نے ایک فین کو یہاں تک کہہ دیا کہ: ’جارج مارٹن تمہارا غلام نہیں ہے۔‘
یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا جین ’ونڈز آف ونٹر‘ کے مینو سکرپٹ کا انتظار کر رہی ہیں؟ اور وہ اس حوالے سے کب سے انتظار کر رہی ہیں؟
جین نے قہقہہ لگاتے ہوئےکہا: ’جان سنو کی طرح میں بھی کچھ نہیں جانتی۔‘
’جارج اس پر بہت محنت سے کام کر رہے ہیں، اور وہ جیسے ہی اس کو مکمل کریں گے تو اس بارے میں اپنے بلاگ پر سب کو آگاہ کر دیں گے اور اس کے بعد جتنا جلد ہو سکا ہم اس کو شائع کر کے فینز تک پہنچا دیں گے۔‘