اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے ہزارہ ٹاون کوئٹہ میں افغان پناہ گزینوں کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے حال ہی میں دستکاری سینٹر قائم کیا ہے۔
اسی طرز کا ایک سینٹر پہلے ہی شہر کے افغان پناہ گزینوں کے اکثریتی علاقے غوث آباد میں موجود ہے جہاں نہ صرف افغان پناہ گزین خواتین کام سیکھ رہی ہیں بلکہ کام سیکھانے والی بھی افغان خواتین ہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں تین لاکھ سے زائد سرکاری دستاویزات رکھنے والے مہاجر پناہ گزین ہیں جن کے یہاں رہنے پر صوبے کی بعض سیاسی جماعتوں میں اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔
گو کہ عالمی ادارہ برائے مہاجرین افغان پناہ گزینوں کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے ان کو ہنرمند بنا رہا ہے لیکن قوم پرست جماعتیں ایسے اقدامات کو افغان پناہ گزینوں کے انخلا میں رکاوٹ سمجھتی ہیں۔
ایسا ہی موقف رکھنے والی قوم پرست سیاسی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی بھی ہے جن کے قائدین چالیس سے یہاں آباد افغان پناہ گزینوں کو صوبے پر بوجھ سمجھتے ہیں۔
بی این پی کے مرکزی ترجمان اور ممبر قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ کے مطابق افغان پناہ گزینوں کو باعزت طریقہ سے واپس افغانستان بھیجا جائے۔
آغا حسن بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بی این پی کا 1993سے یہی مطالبہ ہے کہ افغان پناہ گزینوں کا باعزت انخلا یقینی بنایا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ افغان پناہ گزین بلوچستان کے معاشرے اور معیشت پر بوجھ ہیں انہی کی وجہ سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں طالبانائزیشن، انتہا پسندی، کلاشنکوف کلچر کو فروغ ملا ہے۔‘
بلوچستان نیشنل پارٹی کے موقف کے برعکس یہاں پر ایک اور پشتون قوم پرست سیاسی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سمجھتی ہے کہ جو لوگ افغان پناہ گزینوں کو بوجھ سمجتھے ہیں ان کے اعتراض کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا کیونکہ افغان پناہ گزین اپنی سرزمین پر موجود ہیں۔
پشتونخواملی عوامی پارٹی کے صوبائی ڈپٹی سیکرٹری اور ممبر صوبائی اسمبلی نصر اللہ زیرے کہتے ہیں کہ افغان پناہ گزین یہاں چار دہائیوں سے آباد ہیں اور یہاں ان کی نسلیں پروان چڑھی ہیں یہ پناہ گزین یہاں کسی مجبوری کے تحت آباد ہیں اور خود عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے اپنے اعداد وشمار کے مطابق اب تک دس لاکھ سے زائد افغان پناہ گزین اپنے وطن واپس جاچکے ہیں۔
نصر اللہ زیرے کے بقول: ’افغان پناہ گزین یہاں کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ جنیوا کنونشن کے معاہدے کے مطابق یہاں رہتے ہیں اور ان پناہ گزینوں کو یہاں رہنا بھی چاہیے کیونکہ وہ اپنی افغان تاریخی سرزمین پر موجود ہیں۔‘
ادھر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے کوئٹہ سب آفس کے سربراہ میرین ڈن کہتے ہیں کہ کوئٹہ یا دوسرے علاقوں میں افغان پناہ گزینوں کی فلاح کے لیے کام کرنا ان کا مینڈیٹ ہے اس لیے وہ کوئٹہ میں غیرسرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر دو سینٹرز سے قائم کرچکے ہیں جن کا مقصد افغان خواتین کو معاشی طور پر مستحکم کرنا ہے۔
میرین ڈن کا کہنا ہے کہ ’ہم افغان پناہ گزینوں کو اس وقت تک سہولیات فراہم کریں گے جب تک وہ اپنے آبائی علاقے لوٹ نہیں جاتے۔‘
ان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا افغان پناہ گزینوں کے یہاں آباد ہونے پر قوم پرستوں کو تحفظا ت ہیں تو انہوں نے کہا کہ اگر ایسے کوئی معاملات ہیں تو ہم پاکستان کی حکومت کو قانونی اور تکنیکی معاونت فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
قوم پرستوں کے تحفظات کے باوجود پاکستان کی حکومت افغان پناہ گزینوں کو معاشی استحکام اور کاروبار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے بینک اکاﺅنٹ کھولنے کی سہولت دے رہی ہے۔