پنجاب حکومت نے سرکاری زمینوں پر قبضے چھڑانے کے لیے لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) میں سابق فوجیوں کو بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ فیصلہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف ٹھوس حکمت عملی کا حصہ بتایا جا رہا ہے، جس کے تحت ایل ڈی اے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ بنانے اور ری آرگنائزیشن کا حتمی فیصلہ ہو چکا ہے۔ ایل ڈی اے حکام کے مطابق انفورسمنٹ کے لیے سپیشل پے پیکج پر فوج کے ریٹائر افسران اور جوان بھرتی ہوں گے، جنہیں اہم پوسٹوں پر تعینات کیا جائے گا اور جس کی منظوری گورننگ باڈی اجلاس میں دے دی گئی ہے۔
سپیشل پے پیکج کے مطابق انفورسمنٹ شعبے میں ڈائریکٹر دو لاکھ روپے ماہانہ پیکج جب کہ ڈیڑھ لاکھ روپےماہانہ پر دو ڈپٹی ڈائریکٹر بھرتی ہوں گے۔ انفورسمنٹ آفیسر کو گریڈ 17 جب کہ ریٹائر آرمی پرسنل کو گریڈ 16 کے تحت زونل افسر رکھا جائے گا۔
ایل ڈی اے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کو ری آرگنائز کرتے ہوئے دو سیکشن بنا کر سربراہی علیحدہ علیحدہ ڈپٹی ڈائریکٹرز کے سپرد کی جائے گی۔ ڈپٹی ڈائریکٹرز کے ماتحت ایک، ایک سینیئر سٹیٹ آفیسر اور سٹیٹ آفیسر ہوں گے۔ اسی طرح قبضہ گروپوں کے خلاف ایکشن کے لیے پولیس کی اضافی نفری مانگنے کا آپشن برقرار رہے گا۔
ایل ڈی اے نے تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے، جو تمام تھانوں میں قبضہ گروپوں اور تجاوزات سے متعلق زیر التوا درخواستوں اور مقدمات کا جائزہ لے کر فوری کارروائی کرے گی، اس تین رکنی کمیٹی میں کلیکٹر لینڈ، اسسٹنٹ کمشنراور ایس پی شامل ہیں۔
ایل ڈی اے ریٹائر فوجیوں سے کیا کام لے گا؟
اس سوال کے جواب میں وائس چیئرمین ایل ڈی اے ایس ایم عمران نے بتایا کہ وہ حکومت کی ہدایت پر ایل ڈی اے میں سرکاری زمینوں پر قبضہ گروپوں اور غیر قانونی تعمیرات کے خلاف انفورسمنٹ ونگ کی تشکیل نو کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس معاملے میں جہاں خامیاں ہیں وہ دور کی جائیں۔
’ہم اس ونگ کو مکمل فعال بنانے کے لیے افسران اور اہلکار بھرتی کر رہے ہیں، جن میں ترجیح ریٹائر فوجی افسران اور اہلکاروں کو دی جائے گی، اس کی وجہ یہ ہے کہ فوج میں ترقی نہ ملنے پر کرنل اور دیگر عہدوں سے افسران کم عمر میں ریٹائر ہوجاتے ہیں اور ان کی جسمانی طور پر فٹنس بھی بہتر ہوتی ہے۔ انہیں ایک منظم ادارے میں کام کرنے کا بہتر اندازہ ہوتا ہے جبکہ پولیس سے ریٹائر ہونے والوں کی عمر زیادہ اور جسمانی فٹنس زیادہ اچھی نہیں ہوتی۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ اگر کوئی پولیس یا دیگر کسی شعبے سے تعلق رکھنے والا بہتر امیدوار ہوگا تو ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے تک انہیں بھی موقع دیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انفورسمنٹ ونگ کے ذریعے وہ اپنے آپریشنز میں بہتری کے خواہاں ہیں کیونکہ اب جو طریقہ کار ہے وہ بہت سست اور محدود ہے، ایک جگہ کارروائی کے لیے تین سے چار شعبوں کے افسران کی منظوری ہوتی ہے اور پولیس بھی ایل ڈی اے کے مختلف شعبوں سے رابطوں کی وجہ سے پوری طرح کارروائی سے قاصر ہوتی ہے۔
’اس لیے ہم نے اب پولیس کے ساتھ صرف ایک ڈپٹی ڈائریکٹر کو رابطوں کی ذمہ داری دی ہے اور جو ہزاروں درخواستیں زیر التوا ہیں ان پر بھی جلد کارراوئی کی حکمت عملی بنائی ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ ملک بھر میں ایل ڈی اے واحد ڈویلپمنٹ اتھارٹی ہے جو قبضہ گروپوں کے خلاف کارروائی کے لیے ریٹائر فوجی بھرتی کر رہا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہر ڈویلپمنٹ اتھارٹی اپنی طریقے سے کام کر رہی ہے۔ ’ہم نے اپنے کام میں بہتری کے لیے جو ضروری سمجھا وہ فیصلہ کیا ہے۔ کوئی اور اتھارٹی جیسے مناسب سمجھے وہ ویسے کام کرے۔ ہم نے اپنا فرض ادا کرنا ہے باقیوں نے اپنا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایل ڈی اے ایمپلائز یونین کے رہنما عباس بٹ کا ماننا ہے کہ ایل ڈی اے اتھارٹی کا اپنا اختیار ہے، وہ جو بھی پالیسی بنائے لیکن اگر دوسرے محکموں کے ریٹائر ملازمین کی بجائے اپنے محکمے سے تربیت یافتہ لوگوں کو ذمہ داریاں دی جائیں تو وہ بھی مطلوبہ ٹارگٹ پورا کرسکتے ہیں اور ویسے بھی ایل ڈی اے ملازمین ہر شعبے میں اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں۔
بٹ نے کہا تاہم بہتری کی گنجائش ہر جگہ موجود ہوتی ہے، اگر اتھارٹی کو مزید بہتری کرنا تھی تو وہ بھی ملازمین کو ترقی دے کر یا تنخواہوں میں اضافے سے کی جاسکتی تھی۔
حکومتی ترجیحات:
وزیر اعظم عمران خان متعدد بار اعلان کر چکے ہیں کہ قبضہ گروپوں سے سرکاری زمین واگزار کرانا اور غیر قانونی تعمیرات کو روکنا حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ کچھ عرصہ پہلے لاہور میں ایک مشہور سیاسی خاندان کے کھوکھر پیلس میں شامل 30 کنال مبینہ سرکاری زمین واگزار کرانے کے لیے بھی ایل ڈی اے نے پولیس کی مدد سے بڑا آپریشن کیا تھا، جسے بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے غیر قانونی کارروائی قرار دے کر روک دیا اور معاملہ اب سول عدالت میں زیر سماعت ہے۔
اسی طرح سیالکوٹ میں بھی ایک ہاوسنگ سوسائٹی میں مبینہ غیر قانونی تعمیر پر پلازہ مسمار کیا گیا اور پنجاب بھر میں قبضہ گروپوں اور غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ تاہم ان کارروائیوں پر اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات ہیں کہ یہ ’سیاسی انتقامی کارروائیاں‘ہیں۔