ضلع بدین کے گولاڑچی شہر سے 16 کلومیٹر کے فاصلے پر مغرب جنوب کی طرف صدیاں پہلے ایک قلعہ قائم تھا جب دریائے سندھ اس علاقے سے بہتا تھا۔ دریا کے اس بہاؤ کو لوگ آج بھی ’پٹیھل اور پھٹو‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
تاریخ کی کتابوں میں اس قلعے کو انڑ کوٹ کے علاوہ کھیریوں کوٹ کا بھی نام دیا گیا ہے۔ یہ قلعہ کس زمانے میں بنا، یہ ایک ایسا الجھا ہوا سوال ہی ہے جس کا مکمل جواب ابھی تک تو نہیں ملا، لیکن ماہرین تاریخ نے اس ضمن میں اپنی کوششیں ضرور کی ہیں۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ سندھ کی تاریخ پر جتنی بھی کتابیں ہیں وہ عربی یا پھر فارسی میں لکھی گئی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اصل واقعات، ادوار اور مقامی جگہوں کے ناموں میں ایک قسم کا بگاڑ سا پیدا ہونا لازمی امر ہے۔
اس قلعے کی پہچان کا ایک سبب تو لوک کہانیوں کا ایک قصہ ’چھتو اور کھیریں‘ ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ کئی سو برس پہلے یہاں راٹھوڑ قبیلہ آباد تھا۔ اسی قبیلے کی ایک حسین و جواں لڑکی کھیریں نے یہ شرط لگائی تھی کہ جو بھی اس جگہ ایک قلعہ تعمیر کرے گا، وہ اسی سے شادی کرے گی۔
چھتو نامی ایک نوجوان نے یہ شرط قبول کر لی اور لگ گیا قلعہ تعمیر کرنے۔ کہتے ہیں کہ قلعہ تو بن نہ سکا لیکن قلعے کو بناتے بناتے اس کی عمر نے جواب دے دیا۔ کھیریں بھی قبر کے حوالے ہو گئی۔ سندھی میں ایک کہاوت ہے کہ ’چھتو گاڑھو گھوٹ اڈ یندے اچھو تھیو۔‘ مطلب کہ چھتو جواں دلہا تھا، قلعے کی تعمیر کرتے کرتے اس کے بالوں میں سفیدی آ گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جام انڑ سموں‘ جن کا سندھ پر راج تو ساڑھے تین برس تک چل سکا لیکن تاریخ میں وہی سندھ میں اندازاً 300 برسوں تک قائم رہنے والی سمہ سلطنت کے بانی مانے جاتے ہیں۔ ان کے متعلق تاریخ کی کتابیں ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے اسی قلعے سے بیٹھ کر سومروں کے آخری بادشاہ ہمیر یا ارمابیل سومرہ کو حکومت چھوڑنے پر مجبور کیا تھا، کیونکہ جام انڑ نے بادشاہ ہمیر کے ایک اہم ساتھی جسوتن کو قتل کر دیا تھا۔ اسی جسوتن آگریو کا ذکر سندھ کے بڑے شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی نے بھی اپنی شاعری میں کیا ہے۔
بظاہر تو لگتا یہی ہے کہ جب جام انڑ نے ڈیرے ڈالے ہوں گے تو یہ قلعہ پہلے سے ہی موجود رہا ہو گا۔ 20 ایکڑ زمین کے رقبے اور 28 برجوں پر مشتمل یہ قلعہ ماضی میں یقیناً شاہکار رہا ہو گا۔ انگریز محقق راورٹی کی کتاب ’سندھ جو مہران‘ کے مطابق سمہ خاندان کے لوگ نقل مکانی کر کے لاڑ کے سموں کے ساتھ آ کر ملے تھے۔ سومرو حکومت کا تختہ پلٹنے سے پہلے انہوں نے اپنا ایک قلعہ بھی تعمیر کر لیا تھا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس قلعے کا نام ٹھاکر آباد تھا، کیونکہ وہ ایک ٹھاکر سردار کے رہنے کی جگہ تھی۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اسی زمانے میں ہمیر سومرو نے ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ یوں کچھ کے سموں نے انڑ سمہ کو اپنا رہنما چنا، جو دانائی اور جرات میں سب سے آگے تھا۔ تو انڑ نے ایک حملہ کر کے ہمیر سومرو کا کام تمام کر دیا۔
یہ قلعہ محض ایک دفاعی قلعہ تھا۔ اس کی دیواروں کے اندر کچھ کوٹھیوں کے علاوہ بڑے پیمانے پر کسی رہائشی آبادی کے آثار نہیں ملتے
تاریخ دان اور محقق اشتیاق احمد انصاری اپنی کتاب ’سندھ جا کوٹ اور قلعہ‘ میں لکھتے ہیں: ’اس قلعے کی تعمیر میں جومیٹری اور انجینیئرنگ کا مکمل طور پر خیال رکھا گیا ہے۔‘
اس قلعے کی شمالی دیوار سے اس وقت بہتے دریا کی لہریں ٹکراتی تھیں باقی تینوں اطراف سے 100 فٹ تک چوڑی کھائی ہوا کرتی تھی۔ صدیوں سے وقت کا مقابلہ کرتی قلعے کی دیواریں اب اینٹوں کے ملبے میں بدل گئی ہیں لیکن ان کی اونچائی کہیں کہیں اب بھی 20 فٹ تک قائم ہے
قلعے کے اندر شمال مشرقی کونے پر ایک کنویں کے نشان اب بھی باقی ہیں، جو ماضی میں قلعہ کے اندر رہنے والوں کے لیے پانی کا ذریعہ رہا ہو گا۔
قلعے کے اندر سے لوگوں کو پکائی ہوئی مٹی کے کئی گولے ملے تھے جن کا وزن دو کلو تک کا تھا۔ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ یہ ممکنہ طور پر منجنیقوں کے گولے ہیں جو قلعوں کی دیواریں توڑنے کے کام آتے تھے۔
اس علاقے میں جام انڑکی گھوڑی اور کتے کا قصہ بھی بہت مشہور ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک بار کوئی چور جام کی گھوڑی چرانے کے ارادے سے آئے، لیکن اس کا کتا وفادار تھا، چوروں نے گھوڑی اور کتے کو مار دیا اور بھاگتے چوروں میں سے کچھ کو جام نے قتل کر دیا۔
جام نے اپنی گھوڑی اور کتے کو زمین کے حوالے کر کے اس جگہ ایک یادگار قائم کی جو آج بھی ’کتا ماڑی‘ کے نام سے مشہور ہے۔
مشہور قصوں اور کہانیوں کو ایک طرف رکھ کر ہم اگر اس قلعے کی دفاعی اہمیت پر دھیان دیں تو بڑی حد تک بات سمجھ میں آ سکتی ہے۔ انڑکوٹ کے مغرب میں 10 کلومٹر تک سومرو کا کہا جانے والا آخری پایۂ تخت شاہ کپور یا مہاتم طور تھا جس کے آثار آج بھی بدین ٹھٹہ روڈ سے چار کلومیٹر کی دوری پر قائم ہیں۔
ایک اور بات کہ یہ قلعہ محض ایک دفاعی قلعہ تھا۔ اس کی دیواروں کے اندر کچھ کوٹھیوں کے علاوہ بڑے پیمانے پر کسی رہائشی آبادی کے آثار نہیں ملتے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اتنا بڑا قلعہ تعمیر کرنے والے لوگ کہاں رہتے تھے؟ اس بات پر کسی کی نظر نہ گئی اور نہ ہی کسی نے اسے قلمبند کیا۔
میرے خیال میں اس قلعے کے ساتھ میں مغربی طرف بہت بڑی اراضی پر رہائشی آبادی تھی جہاں کچے مکانوں کے نشانات اور مٹی کے ٹوٹے برتن بکھرے پڑے ہیں، وہاں ایک پکی جگہ کے آثار بھی ہیں، اس جگہ تک آنے کا راستہ بھی اینٹوں سے بنایا گیا تھا۔ مقامی لوگوں کا کہنا کے یہاں مسجد ہوا کرتی تھی۔ آرکیالاجی کے شاگرد لجپت رائے کیا کہنا ہے کہ اس جگہ میں لگی اینٹیں ہندو دور میں استعمال ہونے والی اینٹوں جیسی ہیں۔
اس قلعے سے تھوڑی ہی دوری پر جنوب میں ’ماڑی وسایو‘ کے آثار بھی ہوا کرتے تھے، جن کے بارے میں گمان غالب ہے کہ شاید یہ آثار سندھ پر عربوں کے حملے وقت راجہ داہر کا ساتھ چھوڑ کر محمد بن قاسم سے جا ملنے والے موکہ بن بسایہ کے شہر کے ہوں، کیونکہ سندھ کی تاریخ میں کسی اور بسایہ کے نام سے کوئی کردار موجود ہی نہیں۔
کچھ برس پہلے وہاں سے لوگوں کو تراشے ہوئے پتھروں سے تعمیر کیے گئے ایک مندر کے آثار، ایک تلوار اور مکھی کی مورتی ملی تھی۔ ان سبھی نشانیوں سے اس قلعے کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ اگر حکومت سندھ اس قلعے پر اپنی توجہ دے تو یہ مقام بدین اور سندھ کا ایک بہت بڑا سیاحتی مرکز بن سکتا ہے۔