ہر روز نو کروڑ بار دیکھے جانے والے پھول کی عجیب کہانی

ایک بے ضرر پھول کی یہ تصویر 2004 میں دی ہیگ کے فلورنس نائٹ انگیل پارک میں بنائی گئی تھی لیکن گذشتہ سال 29 جون کو اسے آن لائن دیکھنے والوں کی تعداد میں بھرپور اضافہ دیکھا گیا اور گذشتہ ایک مہینے کے دوران اسے روزانہ نو کروڑ کے لگ بھگ لوگ دیکھ رہے ہیں۔

یہ رائلٹی فری تصویر لاکھوں عام تصاویر کی حامل ویب سائٹ وکی میڈیا پر موجود ہے  (تصویر: وکی میڈیا  کامنز)

جامنی رنگ کا گل داؤدی کا یہ پھول جسے روزانہ کی بنیاد پر دس کروڑ لوگ دیکھ رہے ہیں، نے اس ویب سائٹ جس پر یہ موجود ہے کو اس ’عجیب و غریب سلسلے‘ کے حوالے سے تحقیق کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

یہ رائلٹی فری تصویر لاکھوں عام تصاویر کی حامل ویب سائٹ وکی میڈیا کامنز پر موجود ہے لیکن اس ویب سائٹ پر آنے والی ٹریفک کا 20 فیصد حصہ صرف اس تصویر کی وجہ سے اس آن لائن ڈیٹا بیس پر آ رہا ہے۔

ایک بے ضرر پھول کی یہ تصویر سال 2004 میں دی ہیگ کے فلورنس نائٹ انگیل پارک میں بنائی گئی تھی، لیکن گذشتہ سال 29 جون کو اسے آن لائن دیکھنے والوں کی تعداد میں بھرپور اضافہ دیکھا گیا اور گذشتہ ایک مہینے کے دوران اسے روزانہ نو کروڑ کے لگ بھگ لوگ دیکھ رہے ہیں۔

یہ متجسس اور تھکا دینے والی سرگرمی وکی میڈیا فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک تحقیق کی وجہ بن رہی ہے۔ یہ غیر منافع بخش تنظیم وکی پیڈیا اور وکی میڈیا کامنز کی نگرانی کرتی ہے۔

وکی میڈیا کامنز کے ڈائریکٹر آف مشین لرننگ کسرس البن نے سوموار کو ٹوئٹر پر لکھا: ’ایک پر اسرار سلسلے کے بارے میں اس حقیقی اور لائیو ٹکٹ کو یہاں دیکھیں۔ ہمارے ڈیٹا سینٹر کو موصول ہونے والی درخواستوں میں سے 20 فیصد ایک پھول کی تصویر کے بارے میں ہیں۔ کوئی اس کی وجہ نہیں جانتا۔‘

’غیر معمولی میڈیا ٹریفک کے رویے‘ کے بارے میں کی جانے والی یہ عوامی تحقیق اس تنظیم کے ساتھ باہمی تعاون کرنے والے ادارے فیبریکٹر پر پوسٹ کی گئی تھی، جو عمومی طور پر سافٹ ویئر پروجیکٹس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اس غیر معمولی ٹریفک کے بارے میں تحقیق پر مبنی ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ ’ہم نے آج نوٹس کیا ہے کہ ہمیں بھارت کی مختلف آئی ایس پیز سے ایک دن میں نو کروڑ درخواستیں موصول ہوئی ہیں جو ایک ہی جیسی تھیں۔ یہ بہت عجیب ہے کیونکہ یہ کافی مختلف آئی پیز سے موصول ہوئی ہیں اور ان میں روزانہ جیسی زندگی کے طریقے پر ہی عمل کیا گیا ہے۔‘

ویب سائٹس کے ماہرین نے اس کی وجہ جاننے کے لیے کئی تکنیکی طریقے استعمال کیے، جن میں ریورس امیج سرچ بھی شامل ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس ٹریفک کی وجہ کیا ہے لیکن ان طریقوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

ڈیٹا درخواستوں کے کوڈ کے مطابق یہ ٹریفک موبائل ایپ سے آ رہی تھی جس کے اکثریتی ویب ایڈریسز کا تعلق بھارت سے تھا۔ بھارت کے انٹرنیٹ صارفین جو اس تحقیق کا حصہ ہیں اس وجہ سے حیران دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اتنی مقبولیت کے باوجود بھی وہ اس پھول کو نہیں پہچان پا رہے۔

محققین نے کئی مقبول ایپس کو یہ جاننے کی کوشش کرتے ہوئے ڈاؤن لوڈ کیا کہ وہ اس تصویر کو ان ایپس کی سپلیش سکرین یا ان کے اندر کہیں شناخت کرسکیں لیکن یہ گل داؤدی کی تصویر کہیں نہیں مل سکی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حتمی طور پر یہی نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کوئی ایپ اس تصویر کو وکی میڈیا کامنز سے استعمال کر رہی ہے لیکن اسے دکھا نہیں رہی۔

وکی میڈیا کے ایک سافٹ ویئر انجینیئر سکھبیر سنگھ کی ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ ’ہم نے وہ مخصوص ایپ شناخت کر لی ہے جو اس تصویر کے لیے درخواست کر رہی تھی اور یہ جاننے کے لیے ہم نے اس ایپ کے استعمال کے وقت اور ہمارے سرورز کو اس حوالے سے موصول ہونے والے وقت کو استعمال کیا ہے۔‘

اس ایپ کی شناخت کو ابھی تک ظاہر نہیں کیا گیا کیونکہ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے لیکن وکی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ ایک ’مقبول چیٹ / سوشل میڈیا ایپ ہے جو بھارت میں استعمال ہوتی ہے۔‘ جس کے بعد یہ قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں کہ یہ ٹک ٹاک کی مقامی حریف ہو سکتی ہے۔

دنیا بھر میں مقبول چین کی اس ایپ کو بھارت میں تقریباً اسی وقت سے پابندی کا سامنا ہے جب سے اس تصویر کے لیے ڈیٹا درخواستیں موصول ہونا شروع ہوئی ہیں۔ اس پابندی کی وجہ سے لوگوں نے ٹک ٹاک کے متبادل تلاش کرنے شروع کر دیے ہیں۔

ریسٹ آف ورلڈ کی ایک رپورٹ کے ایک اندازے کے مطابق اس کی ذمہ داری بھارت میں ٹک ٹاک کی مقامی حریف ایپ ایم ایکش ٹکا ٹاک، موج یا جوش ہو سکتی ہے۔

دوسری جانب وکی میڈیا نے اس حوالے سے اپنا موقف دینے کی درخواست کا تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی