حزب اسلامی افغانستان کے رہنما گلبدین حکمت یار نے خبردار کیا ہے کہ اگر صدر اشرف غنی کی حکومت نے حزب اسلامی کے ساتھ امن معاہدے کی تمام شرائط پر عمل درآمد نہ کیا تو ان کے لوگ صدارتی محل کا محاصرہ کریں گے اور اشرف غنی کی حکومت ختم کردی جائے گی۔
حکمت یار نے کئی سال تک حکومت کے خلاف بغاوت کی اور ہتھیار اٹھائے رکھے لیکن آخر کار تشدد کا راستہ چھوڑتے ہوئے خفیہ ٹھکانے سے نکل کر دارالحکومت کابل میں رہائش اختیار کرلی۔
ان تمام کاموں سے پہلے انہوں نے حکومت کے ساتھ معاہدہ کیا، جس میں وعدہ کیا گیا تھا کہ ان کے لوگوں کو معافی، روزگار اور رہائش دی جائے گی، لیکن صرف اتنا ہی ہوا کہ حکمت یار کا نام عالمی برادری کی بلک لسٹ سے نکال دیا گیا اور مزید کچھ رعاعتیں دی گئیں۔
اس طرح ستمبر 2016 میں حکمت یار اور اشرف غنی کے درمیان ہونے والے معاہدے کی بہت سی شقوں پر عمل درآمد نہ ہو سکا اور حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات بھی دن بدن خراب ہوتے چلے گئے۔
افغانستان سے سابق سوویت یونین کی فوج کے انخلا کی سالگرہ کے موقعے پر آج (پیر) کو اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے سوویت یونین مخالف رہنما گلبدین حکمت یار نے کہا: ’میں صدارتی محل کے کرائے کے فوجیوں کو خبردار کرتا ہوں کہ اگر معاہدے کے مطابق ہمارے تمام قیدیوں، ایجنٹوں، مجاہدین اور افسروں کو فوری، بلاتفریق اور غیرمشروط طور پر رہا نہ کیا گیا، بے گھر ہونے والوں کو نہ بسایا گیا اور معاہدے کی دوسری شرائط پر عمل نہ ہوا تو ہم صدارتی محل کا محاصرہ کریں گے تاکہ بدعنوان افراد کی سیاہ حکمرانی ختم ہو اور لوگوں کو ان سے نجات ملے۔‘
اگرچہ گلبدین حکمت یار اس وقت اثرورسوخ کے مالک اور مقبول رہنما نہیں ہیں اور نہ ہی ماضی کی طرح انہیں کوئی قانونی حیثیت حاصل ہے اور پھر افغانستان بھی کوئی ایسا ملک نہیں جس پر سوویت یونین نے قبضہ کر رکھا ہوا، اس کے باوجود ان کی دھمکی کو ہلکا نہیں لیا جا سکتا، جس کی وجہ یہ ہے کہ ڈرامائی تبدیلیوں کے باوجود افغان حکومت کو اب بھی بہت سارے ایسے چیلنجوں کا سامنا ہے جو اس کے استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔
افغانستان کے خبر رساں ادارے پژواک کے مطابق ملک کے 52 فیصد حصے پر کنٹرول رکھنے والے طالبان افغان حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے بات چیت میں مصروف ہیں۔ اس گروپ نے افغان حکومت پر فوجی دباؤ بڑھا دیا ہے اور وہ یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ کابل حکومت تباہی کے دہانے پر ہے۔
دریں اثنا پاکستان نے حال ہی میں حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار ، حزب وحدت اسلامی کے رہنما کریم خلیلی اور پارلیمنٹ کے اسپیکر میر رحمان رحمانی سمیت دیگر افغان سیاسی رہنماں کی میزبانی کی ہے، جس کے دوران افغان مسئلے کے 'پرامن حل' اور طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے پر زور دیا گیا۔
پارلیمنٹ کے سپیکر سمیت ان میں سے کچھ حکام نے پاکستان سے واپس آنے کے بعد اشرف غنی کی حکومت کا تختہ الٹنے اور پارلیمنٹ کے ساتھ شراکت اقتدار کے لیے عبوری حکومت کے قیام کی کھل کر حمایت کی ہے۔
گلبدین حکمت یار کا جوانی ہی سے ہی پاکستان میں حکمران اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے اور بلا شبہ وہ پاکستان کے ایک سٹریٹیجک حلیف ہیں۔ شاید اسی تناظر میں ہی کسی کو صدارتی محل کے محاصرے کے بارے میں ان کے حالیہ بیانات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
وہ گذشتہ چار سال سے عسکری کارروائیاں ترک کر چکے ہیں۔ انہوں نے دارالحکومت کابل سمیت دوسرے مقامات پر جلسے کیے ہیں، جن میں حزب اسلامی کے سینکڑوں ارکان نے شرکت کی۔ کسی بھی سیاسی انتشار، چاہے وہ کسی چھوٹے سے حلقے میں ہی کیوں نہ ہو، سے عوام کی حکومت پر بداعتمادی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا اور دوسرے اسلامی گروپوں کو موقع مل جائے گا کہ وہ طالبان اور پاکستان کے قریب ہو کر حکومت کے سامنے کھڑے ہوجائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پارلیمنٹ کے سپیکر میر رحمان رحمانی کے حامیوں کے حالیہ مظاہروں، حکومت پر تنقید اور ملک کے جنوب اور شمال میں رحمانی کے منصب کا دفاع کرنا بھی ایسے اقدامات کی علامات ہیں جو مزید داخلی تقسیم اور حکومت کو اندر سے ختم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ 1990کی دہائی میں سرخ فوج کی واپسی اور ماسکو کی جانب سے کابل حکومت کی معاونت ختم ہو جانے کے بعد نجیب اللہ حکومت اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ مجاہدین نے کابل پر قبضہ کرلیا اور خونریز خانہ جنگی شروع ہو گئی، جس کے ساتھ ہی افغانستان تباہی کے دھانے پر آن کھڑا ہوا۔
حکمت یار، جو کئی دہائیوں سے صدارتی محل پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں، افغانستان کے برسوں سے چلنے والے بحران کے ایک کلیدی کھلاڑی ہیں۔ وہ کئی سال تک مرکزی حکومتوں کو ختم ہوتا دیکھ چکے ہیں، تاہم افغان حکومت جو حکمت یار کے خطرے کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں، ملک میں اقتدار کا توازن برقرار رکھنے کے لیے عالمی برادری کی حمایت پر چل رہی ہے۔
حکمت یار کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے اشرف غنی کے نائب ترجمان دوا خان مینہ پال نے کہا: 'موجودہ نظام عوام کی مرضی سے قائم ہے اور اسے قومی اور بین الاقوامی سطح پر قانونی حیثیت حاصل ہے۔ لوگ اس نظام کی حمایت میں کھڑے ہیں کیونکہ انہیں ماضی میں تلخ تجربہ ہو چکا ہے۔ وہ کسی کو اپنے اوپر طاقت کے ذریعے حکمرانی کرنے یا صدارتی محل میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔'