حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے منگل کو پنجاب اسمبلی سے نئے بلدیاتی نظام کا ترامیمی قانون 2019 منظور کرا لیا۔
صوبائی اسمبلی میں حزب اختلاف کی شدید مخالفت کے باوجود ایوان میں اکثریت ہونے کے باعث حکومت یہ قانون باآسانی منظور کرانے میں کامیاب ہو گئی۔
یہ قانون گورنر چوہدری سرور کی منظوری کے بعد رائج ہو جائے گا۔
موجودہ بلدیاتی نمائندوں نے نئے نظام کی مخالفت کرتے ہوئے نہ صرف اسے مسترد کیا بلکہ اس کے خلاف تحریک چلانے کا بھی اعلان کیا ہے۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے قانون منظور ہونے کے بعد ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ’ماضی میں سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر مفلوج بلدیاتی ادارے تشکیل دیے جاتے رہے جن کے پاس نہ کوئی اختیارات ہوتے تھے اور نہ ہی عوامی مسائل حل کرنے کے لیے فنڈز۔ پنجاب کے نئے بلدیاتی نظام میں نہ صرف اختیارات بلکہ 30 فیصد ترقیاتی بجٹ بھی گاؤں کی سطح تک پہنچائے جائیں گے.‘
ماضی میں سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر مفلوج بلدیاتی ادارے تشکیل دیے جاتے رہے جن کے پاس نا کوئی اختیارات ہوتے تھے اور نا ہی عوامی مسائل حل کرنے کے لیے فنڈز
— Usman Buzdar (@UsmanAKBuzdar) April 30, 2019
پنجاب کے نئے بلدیاتی نظام میں ناصرف اختیارات بلکہ 30% ترقیاتی بجٹ بھی گاؤں کی سطح تک پہنچائےجائیں گے#PunjabBaldiyatiInqilab pic.twitter.com/47l72ZDAdM
نئے بلدیاتی نظام میں تبدیلی کی ایک وجہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کا عام انتخابات سے قبل اپنے انتخابی منشور میں ملک بھر میں بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنا کر ان کے ذریعے مقامی سطح پر مسائل حل کرنے کا وعدہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہی پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کو ہدایت کی تھی کہ نئے بلدیاتی نظام کے قانون کو تبدیل کیا جائے اور پارٹی منشور کو مدنظر رکھتے ہوئے اصلاحات عمل میں لاکر نیا نظام فوری رائج کیا جائے۔
حکومت کی نظر میں اس معاملے کی اہمیت کا اندازہ ایسے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بلدیات کی وزارتیں دونوں صوبوں کے سینیئر وزرا کو دی گئیں۔
پنجاب میں علیم خان کو سینیئر وزیر بنا کر بلدیات کی ذمہ داری سونپی گئی لیکن قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے مبینہ کرپشن کی تحقیقات کے بعد علیم اپنےعہدے سے مستعفی ہوئے اور یہ قلم دان وزیر قانون راجہ بشارت کو مل گیا۔
اسی طرح خیبر پختونخوا میں بھی وزارت بلدیات سینیئر صوبائی وزیر عاطف خان کے سپرد کی گئی۔
نئے بلدیاتی مسودہ قانون کے مجوزہ اہم نکات کچھ یوں ہیں۔
- دیہات میں ویلج کونسل اور شہروں میں محلہ کونسل کا انتخاب غیر جماعتی بنیادوں پر ہوگا۔
- تحصیل اور میونسپل کی سطح پر انتخاب جماعتی بنیادوں پر ہوگا۔
- سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کے لئے اپنے الگ پینل دینے کی پابند ہوں گی۔
- تحصیل اور ویلج کونسل کا نظام قائم ہوگا۔
- ضلع کونسل کے نظام کو ختم کردیا جائےگا۔
- شہروں میں حلقہ بندیاں تبدیل کر کے میونسپل اور محلہ کونسل جب کہ دیہات میں تحصیل اور ویلج کونسل کے نام دیے جائیں گے۔
- ویلج کونسل اور محلہ کونسل میں براہ راست الیکشن ہوگا، زیادہ ووٹ لینے والا چیئرمین قرار دیاجائے گا۔
- قانون منظور ہوتے ہی موجودہ بلدیاتی ادارے ختم ہوجائیں گے۔
- بلدیاتی اداروں کا ایک سال کے اندر انتخاب کرایا جائے گا۔
- نئے انتخاب تک بلدیاتی اداروں میں ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوں گے۔
- بلدیاتی اداروں کو پنجاب کے بجٹ کا 33 فیصد حصہ دیا جائے گا۔
- صوبہ پنجاب میں 22 ہزار ویلج کونسلیں قائم ہوں گی جبکہ 138 تحصیل کونسلوں کے انتخاب ہوں گے۔
- قانون میں اداروں کی مدت میں کمی اور تعلیم کی شرط ختم کر دی گئی جبکہ پروفیشنل اور ٹیکنیکل ارکان کی تعداد کو برابر کیا گیا ہے۔
اپوزیشن اور بلدیاتی نمائندوں کا ردعمل:
پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور موجودہ بلدیاتی نمائندوں نے نئے بلدیاتی ترامیمی نظام کو مسترد کر دیا ہے۔
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں صوبائی حکومت عوامی مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے لہذا عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے نئے بلدیاتی نظام کا شور مچایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبے بھر میں بلدیاتی اداروں کی نمائندگی مسلم لیگ ن کے پاس ہے اس لیے حکومت نچلی سطح پر حمایت لینے کے لیے غیر جمہوری اقدامات کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئینی طور پر بلدیاتی نمائندے پانچ سال کے لیے منتخب ہوئے ہیں اس سے پہلے یہ نظام لپیٹنے نہیں دیں گے۔
پیپلز پارٹی کے صوبائی پارلیمانی لیڈر حسن مرتضٰی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت پہلے ہی اپنی نااہلیوں کی وجہ سے پورا نظام تباہ کر رہی ہے، رہی سہی کسر بلدیاتی نظام میں تبدیلی نکال دے گی۔
انہوں نے کہا نئے قانون میں عوامی نمائندوں کو اختیار تو دیا جارہا ہے لیکن ان کی اہلیت اور کارکردگی جانچنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں۔
حسن مرتضیٰ کے مطابق ضلع کونسل کا نظام ختم ہونے سے دیہی عوام کو مسائل حل کرانے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑیں گی اس لیے انہوں نے بل کی مخالفت کی، اپوزیشن کی جانب سے بل پر جمع کرائے گئے 11 اعتراضات بھی حکومت نے مسترد کر دیے۔
صوبائی وزیر بلدیات راجہ بشارت نے اپوزیشن کے احتجاج کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں نئے اور بااختیار بلدیاتی نظام کا قانون پاس ہونے پر وہ صوبے کے عوام کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت نے بلدیاتی نمائندوں کو بے اختیار رکھا جس سے نچلی سطح پر مسائل حل نہ ہوسکے لیکن پی ٹی آئی نے عام انتخابات میں عوامی مسائل حل کرنے کا جو وعدہ کیا تھا وہ نئے بلدیاتی نظام کے ذریعے پورا ہوگا۔
راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ اس نظام کے تحت عوامی نمائندوں کو انتظامی اور مالی وسائل استعمال کرنے کا مکمل اختیار ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ لاہور میں نمائندوں کی تعداد 273 کے بجائے 55 ہو گی، اسی طرح دیگر شہروں میں بھی حلقوں کی تعداد کم کی گئی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق نظام کوئی بھی اچھا یا برا نہیں ہوتا اگر عوامی مسائل ترجیح ہوں تو ہر نظام سے مسائل حل ہوسکتے ہیں، نظام کی تبدیلی کا فائدہ اسی وقت ہوگا جب عوام مطمئن ہوں گے۔