کرونا (کورونا) وائرس کی عالمی وبا نے دنیا بھر میں کروڑوں اور صرف سیاحت کے شعبے میں 180 ملین افراد کو بے روزگار کیا۔ بہت سے ملکوں کے لیے یہ صورت حال زندگی اور موت کا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔
آسڑیلیا کی 15 فیصد مجموعی قومی پیداوار کا انحصار سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ہے، یہی نہیں بلکہ تھائی لینڈ اور مالدیپ جیسے ملکوں میں بڑی تعداد میں شہریوں کا روزگار بھی سیاحت اور میزبانی [ہوٹل انڈسٹری] سے وابستہ رہا ہے۔
اس کالم نگار کی رائے میں یہ صورت حال سعودی عرب کے لیے بھی اہم ہوگی۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن 2030 اصلاحاتی پروگرام میں اگلے دس برسوں تک سیاحت اور سفر کی صنعت معیشت کا جزو لاینفک رہے گی۔
اگر یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے تو آگے چل کر سیاحت کا مستقبل کیا ہوگا؟
اس بات پر طویل مدت سے بحث جاری ہے کہ سیاحت کا شعبہ ماحولیاتی استحکام کو یقینی بناتے ہوئے معاشی ترقی میں کیوں کر کوئی کردار ادا کرسکتا ہے؟
نئی ملازمتوں کے مواقع جہاں بھی پیدا ہوں گے وہاں ماحولیاتی استحکام پر ضرب ضرور پڑے گی۔ اگر کوئی ایک منصوبہ ان دونوں کو کسی منفی نتیجے کے بغیر اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتا ہے تو دنیا اسے ’کورل بلوم‘ کے نام سے جانتی ہے۔ شریرہ جزیرے میں بننے والے اس منفرد ریزورٹ کا تعارف گذشتہ دنوں سعودی عرب کے ولی عہد نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔
یہ تفریح گاہ سعودی عرب کے بحیرہ احمر کی ساحلی پٹی کے منفرد اور شاندار سر سبز و شاداب اور قدرتی ماحول کو پیش نظر رکھ کر بنائی جا رہی ہے۔ کورل بلوم کے مسحور کن فن تعمیر میں نکتہ رس سیاحوں کے شوق نظارہ کی تسکین کا کماحقہ سامان موجود ہو گا۔
ریزورٹ کی نئی بیچز میں ایسی حفاظتی تہیں بنائی جا رہی ہیں جو انہیں دنیا کے سمندروں کی بلند ہوتی ہوئی سطح سے محفوظ رکھنے میں کام آئیں گی۔ بحیرہ احمر کا یہ ترقیاتی منصوبہ پہلے ہی کئی سنگ میل عبور کر چکا ہے۔ اس منصوبے کے طے شدہ اہداف کے عین مطابق کام جاری ہے لیکن یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ اس منصوبے سے تو وہی معدودے چند لوگ ہی فائدہ اٹھا سکیں جن کے پاس یہاں فراہم کردہ پرتعیش سہولیات سے استفادے کے وسائل اور سفری اخراجات موجود ہوں گے۔ ایسا بالکل نہیں!!
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس نئے اور منفرد ریزورٹ میں ماحولیاتی استحکام اور سیاحت کا ایسا ملاپ دیکھنے کو ملے گا، جس سے ملازمتوں کی ایک نئی بہار آئے گی جو کرونا کے بعد پیدا ہونے والی پژمردگی اور معاشی ابتری ختم کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ یہ عالمی سیاحت کی صنعت کا روشن مینارہ بن کر ابھرے گا۔
وژن 2030 پروگرام صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ پورے خلیجی ریجن اور اس سے بڑھ کر مشرق وسطیٰ کے اکیسویں صدی میں تیز رفتار داخلے کی راہ ہموار کرتا ہے تاکہ بہتر معاشرہ تشکیل پا سکے جہاں ملازمتوں کی فراوانی ہو۔ وہاں بننے اور چلنے والے منصوبے جدت کے نمونے کے ساتھ مستحکم ماحول کی ضمانت فراہم کریں گے۔
کووڈ 19 عالمی وبا کورل بلوم منصوبے کی منزل کھوٹی کر سکتی تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس ’بہتر مستقبل کی تشکیل‘ کا نعرہ کرونا وائرس کا منہ چڑانے لگا۔ اس نعرے کی ترویج گذشتہ ماہ ہونے والے سعودی فیوچر انوٹسمنٹ اقدام کے توسط سے بھی دیکھنے کو ملی۔
زندگی کو کرونا وائرس کے بعد بھی جاری رہنا ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے اندر سفر اور سیاحت کی جگہ موجود رہے گی۔ اس ضمن میں بڑا مخمصہ یہی ہے کہ ان شعبوں کی ہیئت کیا ہوگی؟
کورل بلول منصوبہ ان تمام معیارات پر پورا اترتا ہے جو ایک نئے جغرافیہ میں سیاحت کے فروغ کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ وہاں ملازمت کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور سب سے بڑھ کر ماحول کو خرابی سے بھی بچایا جائے گا۔
شریرہ جزیرہ میں بننے والی کورل بلوم نامی منفرد سیرگاہ آئندہ برسوں میں فروغ پانے والی سیاحت کا اہم نشان ثابت ہو گا۔ دنیا کو فی الوقت ایسی ہی سیاحت کی ضرورت ہے کہ جس میں ماحول پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو۔
یہ آسانی سے حاصل ہونے والا نشان منزل نہیں۔ کورل بلوم اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں پرعزم دکھائی دیتا ہے جو کامیابی کے بعد دنیا کے لیے ماحول دوست سیاحت کی ایک مثال بنے گا اور اس کی گونج مملکت کی حدود سے باہر بھی سنائی دے گی۔
کورل بلوم منصوبے میں ماحولیاتی آگاہی کو سیاحت کے ساتھ ایسے ہم آہنگ کیا جائے گا کہ یہ پیغام پوری دنیا تک بلند آہنگ طریقے سے پہنچایا جا سکے۔ اس منصوبے کے تحت سیاحت کے جو نئے معیار سامنے آئیں گے، وژن 2030 کے لازمی حصے کے طور پر وہی دراصل مستقبل میں سیاحت کی صنعت کے لیے رہنما اصول کا کام کریں گے۔