جامعہ پنجاب، جو ملک کے سب سے بڑے صوبے کی بڑی یونیورسٹی ہے، میں آئے روز طلبہ گروپوں کے درمیان پرتشدد واقعات ہوتے رہتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ طلبہ گروپ لسانی اور نظریاتی بنیادوں پر اپنی اپنی بالادستی کے لیے کوشاں ہیں۔ مگر ان حالات میں ان طلبہ و طالبات کو پریشانی کا سامنا ہے جو روشن مستقبل کے خواب لیے تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔
رواں ہفتے ہونے والے ایک ایسے ہی جھگڑے میں کئی طلبہ زخمی ہوگئے جس پر یونیورسٹی انتظامیہ نے 15 طلبہ کو معطل کر دیا۔
طلبہ گروپوں کے مطابق وہ اپنے اپنے نظریے کے تحت حالات بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر جب آؤٹ سائیڈر مداخلت کرتے ہیں تو حالات خراب ہو جاتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ اسلامی جمیعت طلبہ کے مطابق ’یہاں پختون طلبہ حالات خراب کر رہے ہیں‘ جبکہ پختون طلبہ کا خیال ہے کہ جمعیت کو ’من پسند نظریات تھوپنے‘ کا اختیار نہیں ہے۔
ایسے ہی حالات قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد اور جامعہ کراچی میں بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ دوسری جانب مختلف اضلاع میں سرکاری یونیورسٹیوں کے طلبہ میں جھگڑے بھی معمول بنے ہوئے ہیں۔ ان تمام اداروں میں حالات ملتے جلتے رہتے ہیں جبکہ طلبہ تنظیموں پر پابندیاں ہیں۔
بیشترطلبہ تنظیموں کا موقف ہے کہ طلبہ تنظیمیں بحال ہونے سے مسائل حل ہوسکتے ہیں کیونکہ سب کی رجسٹریشن ہوگی اور تشدد کی بجائے سیاسی ماحول کو فروغ ملے گا۔
یونیورسٹیوں میں پر تشدد جھگڑوں کی وجوہات
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی سمیت صوبائی دارالحکومتوں میں بنی بڑی سرکاری یونیورسٹیوں میں طلبہ کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
یہاں شعبے بھی کئی ہیں جہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ آتے ہیں۔ خاص طور پر پنجاب یونیورسٹی جہاں طلبہ کی کل تعداد 45 ہزار سے زیادہ ہے اور بڑی تعداد میں طلبہ و طالبات ملک کے مختلف علاقوں سے یہاں زیر تعلیم ہیں۔
ترجمان پنجاب یونیورسٹی خرم شہزاد کے مطابق یہاں مختلف علاقائی سوچ اور نظریات رکھنے والے طلبہ زیر تعلیم ہیں اس لیے جمعیت کا ایجنڈا اپنی جماعت، اور پشتون، بلوچ اور پنجابی طلبہ کا اپنی علاقائی سوچ کے مطابق نظریہ ہے۔ لہذا پرتشدد جھگڑوں میں یہ گروپ اپنے اپنے خیالات اور نظریہ کی بالادستی چاہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جمعیت کے طلبہ پشتون اور بلوچ طلبہ کی آزاد خیالی کو رائج ہونے کے مخالف جبکہ بلوچ، پشتون اور پنجابی طلبہ انہیں خود پر اپنے نظریات تھوپنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کئی سیاسی اور بیرونی عناصر سرکاری تعلیمی اداروں میں امن و امان خراب کرنے کے لیے طلبہ کو استعمال کرتے ہیں۔
ترجمان پنجاب یونیورسٹی خرم شہزاد کے بقول: ’یونیورسٹی میں رواں ہفتے ہونے والا جھگڑا بھی لا کے شعبے میں پنجابی اور پشتون طلبہ کی جانب سے جونیئرز سے تعارف کرانے پر شروع ہوا۔ جمعیت کے طلبہ نے روکنے کی کوشش کی تو تلخ کلامی کے بعد لڑائی ہوئی۔ اسی طرح پہلے بھی یہ گروپ کبھی ریلی نکالنے کبھی کوئی تقریب منعقد کرانے یا روکنے پر جھگڑتے رہتے ہیں۔‘
پختون ایجوکیشن ڈویلپمنٹ موومنٹ کے چیئرمین وقاص خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جمعیت پنجاب کی زیادہ تر یونیورسٹیوں میں اپنی اجارہ داری اور نام نہاد نظریات رائج کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
’وہ بلوچ، پشتون اور پنجابی طلبہ کو دبا کر رکھنا چاہتی ہے، آؤٹ سائیڈرز کو بلاکر غنڈہ گردی کی جاتی ہے، کوئی کلاس فیلو لڑکی یا لڑکا آپس میں بات بھی کریں تو انہیں جمعیت کے طلبہ پکڑ کر تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں۔ پروفیسرز اور طلبہ کو اپنے ایجنڈے پر چلنے سے متعلق مجبور کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’ہم جب بھی کوئی تقریب رکھیں، موسیقی یا کلچرل پروگرام منعقد کرائیں تو وہ اسے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
تاہم جمعیت کے امیر قادر عزیز نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا: ’پنجاب یونیورسٹی میں کئی بلوچ اور پشتون طلبہ منظور پشتین کا نظریہ رائج کرنا چاہتے ہیں، یہاں پاکستان مخالف نعرے بازی کی جاتی ہے۔‘
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’یہاں پاکستان فوج کے خلاف نعرے بازی ہوتی ہے اور ملکی اداروں کے خلاف نفرت کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے، ہاسٹلز میں آؤٹ سائیڈرز کو رکھا جاتا ہے، جو لوگ اداروں کو مطلوب ہیں انہیں پناہ دی جاتی ہے اور لٹریچر تقسیم کیا جاتا ہے۔‘
قادر عزیز نے کہا کہ یونیورسٹی میں مغربی کلچر کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ’ہم نے کئی بار یونیورسٹی انتظامیہ سے تحریری شکایات بھی کیں، پولیس کو بھی درخواستیں دیتے ہیں لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔‘
انہوں نے سوال کیا کہ بلوچستان اور پشتون علاقوں میں ہونے والی کارروائیوں پر یہاں احتجاج یا ریلیاں نکالنے کا کیا مقصد ہوتا ہے؟
طلبہ یونینز کی بحالی سے مسائل حل ہو سکتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں حیران کن طور پر تمام طلبہ تنظیموں کے عہدیدار متفق دکھائی دیے۔
پنجاب سمیت ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز پر جنرل ضیا الحق کے دور میں پابندی لگا دی گئی تھی، اس لیے باقائدہ سیاسی جماعتوں کے جمعیت کے علاوہ سیاسی ونگ عملی طور پر غیر فعال ہیں لیکن نظریاتی وابستگی کی بنیاد پر چھوٹے چھوٹے گروپ ضرور موجود ہیں۔
طلبہ تنظیم پختون موومنٹ کے چیئرمین وقاص خان نے کہا کہ اگر طلبہ تنظیمیں بحال ہوجائیں تو سیاسی کلچر کو فروغ ملے گا اور ماضی کی طرح بڑے بڑے لیڈر ان یونینز سے نکلیں گے۔
’دوسرا یہ کہ یونینز کے انتخابات میں منتخب ہونے والے عہدیداروں کو طلبہ کی حمایت حاصل ہوگی اور انہیں امن وامان قائم رکھنے کی ذمہ داری پوری کرنا پڑے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ جب ایک طریقہ کار کے مطابق انتخابی عمل کو فروغ ملے گا تو طلبہ کا ذہنی دباؤ اور تذبذب بھی کم ہوگا اور انتظامیہ کے لیے کنٹرول کرنا اور ان پر نظر رکھنا بھی آسان ہوگا۔
اسی طرح جمعیت کے امیر قادرعزیز نے بھی طلبہ یونین کی بحالی کو جامعات اور کالجوں میں منظم نظام کا ذریعہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح پارلیمنٹ میں ہر جماعت کے رہنما اختلاف رائے رکھنے کے باوجود اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، اسی طرح تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین بحال ہونے سے طلبہ بھی اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں گے اور پر تشدد لڑائیوں کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔
’پھر ہر تنظیم کو اندازہ ہوجائے گا کہ طلبہ کی اکثریت کن کی حامی ہے اور کس طرح کا ماحول چاہتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ہاسٹلز اور کیمپس میں آؤٹ سائیڈرز پر پاپندی عائد کر کے صرف زیر تعلیم طلبہ کو یونین میں فعال کردار ادا کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
ان کے خیال میں ماضی میں تعلیمی اداروں کے طلبہ تنظیموں میں جھگڑے بھی بیرونی عناصر اور آؤٹ سائیڈرز کی مداخلت پر ہوتے رہے ہیں، ’لہذا اگر ایک منظم اور قوائدو ضوابط طے کرنے کے بعد تنظیمیں بحال کی جائیں تو سازگار ماحول پیدا ہو سکتا ہے۔‘
ترجمان پنجاب یونیورسٹی خرم شہزاد نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ یونینز کی بحالی کا فیصلہ وفاقی یا صوبائی حکومتوں کا اختیار ہے اگر وہ انہیں بحال کرنا چاہیں تو انتظامیہ اس پر عمل کرے گی۔
ان کے خیال میں یونینز کی بحالی بیشتر طلبہ کا مطالبہ رہا ہے لیکن انہیں قوائد وضوابط طے کرنے کے بعد بحال کیا جائے اور طلبہ کی اکثریتی رائے پر عمل ہونا چاہیے کیونکہ جو طلبہ و طالبات مستقبل کے خواب سجائے تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں وہ یونینز کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں اور تنظیموں سے وابستہ طلبہ من پسند نظام رائج کرنے کی کوشش کرتے ہیں ایسے رویوں کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔
خرم شہزاد نے کہا کہ جس طرح جامعات پرتشدد کارروائیوں میں ملوث طلبہ کے خلاف کارروائی کرتی ہیں تو ہیومن رائٹس کی تنظیمیں میدان میں آجاتی ہیں، سیاسی جماعتیں بھی اپنے گروپوں کی حمایت کرتی ہیں تو ایسے میں کئی بار شر پسند عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔