ایران میں سزائے موت سے قبل دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہونے والی خاتون کو پھانسی دیے جانے کی خبر سوشل میڈیا اور دیگر نیٹ ورکس پر وائرل ہو چکی ہے۔
42 سالہ زہرہ اسماعیلی کو اپنے شوہر کے قتل کے الزام میں میں 16 دیگر جرائم میں ملوث افراد کے ساتھ رجائی شہر کی بدنام زمانہ جیل میں پھانسی دی گئی۔ پھانسی پانے والے 16 افراد کی شناخت اور ان کے جرائم کے بارے میں ایرانی حکام نے کچھ نہیں بتایا۔
تاہم زہرہ کے وکیل امید مرادی کے اس انکشاف پر کہ ان کی موکلہ کی سزا سے قبل ہی دل کا دورہ پڑنے سے موت واقع ہو گئی تھی لیکن پھر بھی ان کی بے جان لاش کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا، نے ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔
ایسے اقدام کی ان ممالک میں بھی مثال نہیں ملتی جہاں موت کی سزا کا نظام ابھی بھی رائج ہے۔ زہرہ کے وکیل کے بیانات کی اشاعت کے بعد عدلیہ سے وابستہ میزان نیوز ایجنسی نے ایک باخبر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اس واقعے کی تردید کرتے ہوئے لکھا: ’فوجداری عدالت، فارنزک میڈیسن اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندوں نے اس واقعے کی مکمل جانچ پڑتال کی ہے، جس کے بعد فرانزک پیتھالوجسٹ کے بیان، دستیاب میڈیکل دستاویزات اور میڈیکل سرٹیفکیٹ کے مطابق زہرہ کو سزا پر عمل درآمد تک دل، پھیپھڑوں یا گردے کی بیماری لاحق نہیں تھی۔ اس کے برعکس عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کے بعد ان کی موت کی وجہ گردن کی ہڈی کا ٹوٹنا تھا۔‘
ملکی قانون کے مطابق بھی سزائے موت پر عملدرآمد سے قبل ملزم کی موت کی صورت میں سزا کی گنجائش نہیں۔ دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے زہرہ کی موت کے بعد ان کو پھانسی دیا جانا ان شرائط کے مطابق بھی غیر قانونی عمل تھا جس میں مبینہ طور پر ان لاش کی بے حرمتی کی گئی۔
اس سے قبل زہرہ کے وکیل امید مرادی نے اپنے فیس بک پیج پر صبح 5:30 بجے ایک پوسٹ میں لکھا: ’زہرہ اسماعیلی کو آدھا گھنٹہ قبل (اپنی سزا پر عملدرآمد میں تاخیر کے ساتھ) رجائی شھر کی قاراج جیل میں قتل کے الزام میں پھانسی دی گئی تھی۔ وارثوں کو راضی کرنے کی کوششیں جو صبح تک جاری رہیں، ناکام رہی اور… زہرہ کی ساس اور ان کے 20 سالہ بیٹے کی موجودگی میں سزا دے دی گئی۔‘
کچھ گھنٹوں بعد وکیل نے اپنے فیس بک پیج پر ایک اور پوسٹ میں لکھا: ’آج میں نے زہرہ اسماعیلی کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ دیکھا جس میں موت کی وجہ دل کا دورہ لکھی تھی کیونکہ کل 16 افراد کو زہرہ کی آنکھوں کے سامنے پھانسی پر لٹکایا گیا تھا۔ زہرہ کو تحتہ دار پر جانے سے پہلے ہی دورہ پڑا تھا اور ان کے دل کی دھڑکن رک گئی تھیں اور انہوں نے دم توڑ دیا تھا۔
’تاہم اس کے باوجود ان کے بے جان جسم کو پھانسی پر لٹکایا گیا اور ان کی ساس کو ذاتی طور پر وہاں لے جایا گیا تاکہ وہ اپنی بہو، جو ان کے بیٹے کی مبینہ قاتل تھیں، کو چند لمحوں کے لیے لٹکا ہوا دیکھ سکیں۔‘
انہوں نے مزید لکھا: ’زہرہ کے شوہر علی رضا زمانیان وزارت انٹیلی جنس کے ڈائریکٹرز جنرل میں سے ایک تھے اور وہ کوئی عام افسر نہیں تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم امید مرادی نے یہ پوسٹ چند گھنٹوں بعد ڈیلیٹ کردی اور ایسا کرنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی اور نہ ہی کوئی تبصرہ کیا۔ اس سے یہ شبہ پیدا ہوا ہے کہ زہرہ کے وکیل کو ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
نوبل امن انعام یافتہ وکیل اور سماجی کارکن شیریں عبادی نے بھی ان خاتون کی پھانسی کے بارے میں لکھا ہے: ’زہرہ اسماعیلی کے موقف کو بطور والدہ اور بیوی کے نہیں سنا گیا۔‘
زہرہ کے وکیل کے مطابق انہیں اپنے شوہر علی رضا زمانیان (وزارت انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل) کے قتل کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ مقتول (علی رضا) شدید اخلاقی جرائم میں ملوث تھے اور انہوں نے 16 جولائی، 1997 کو اپنی بیوی اور بیٹی کو بار بار پیٹا تھا۔
بظاہر علی رضا کی بیٹی نے اپنے والد کو شاٹ گن سے مار ڈالا لیکن زہرہ نے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنی بیٹی کو بچانے کی کوشش کی تھی۔
طویل مقدمے کے بعد ان کی اپیل کو سپریم کورٹ نے مسترد کردیا اور فوجداری کے آرٹیکل 477 کے مطابق ان کی دوبارہ سماعت کے لیے درخواست پر غور نہیں کیا گیا اور سزا سنا دی گئی۔