مردان شہرکے نواحی علاقے پارہوتی سے حالیہ سینٹ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے دو رشتہ دار سینیٹرزکے ساتھ اب اس یونین کونسل میں سینیٹرز کی تعداد تین ہوگئی ہے۔
55ہزار رجسٹرڈ ووٹس پر مشتمل یونین کونسل پارہوتی سے سال 2015میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر جنرل سیٹ سے خانزادہ خان منتخب ہوئے تھے اور سال2018 میں اسی یونین کونسل سے تعلق رکھنے والے سگریٹ کے کاروبار سے وابستہ دلاور خان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر خیبرپختونخوا سے رکن ایوان بالا منتخب ہوئے۔
پی پی پی کے ٹکٹ پر منتخب سینیٹر خانزادہ خان نے 2019 میں سینٹ سے استعفیٰ دے دیا اور اسی نشست پر ان کے بیٹے ذیشان خانزادہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر سنینٹر منتخب ہوئے تھے۔
حالیہ سینیٹ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے یونین کونسل پارہوتی سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے رہنماؤں ذیشان خانزادہ اور فیصل سلیم الحمن کو خیبرپختونخوا سے جنرل سیٹوں پر ٹکٹ جاری کیے اور دونوں جیت گئے جس کے ساتھ اب سینیٹ میں صرف یونین کونسل پارہوتی سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کی تعداد تین ہے۔
ان تینوں کے ساتھ ساتھ مردان ضلعے کی نمائندگی پی ٹی آئی کی خاتون سنیٹر ڈاکٹر مہر تاج روغانی بھی کر رہی ہیں جو 2018 میں منتخب ہوئی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ممبر صوبائی اسمبلی اور پاکستان تحریک انصاف کے سابق سینیئر وزیر عاطف خان کا تعلق بھی یونین کونسل پارہوتی سے ہے اور حال ہی میں منتخب ہونے والے سینیٹرز بھی عاطف خان کے رشتہ دار ہیں۔
پارہوتی مردان کے قدیم اور مشہور علاقے ہوتی کاحصہ ہے۔ کلپانی ندی کے پل کے اس پار آباد ہونے سے اسے پارہوتی کہا جاتا ہے۔ اس یونین کونسل میں بڑے سیاسی گھرانے آباد ہونے کی وجہ سے سابقہ دو اراکین قومی اسمبلی نسیم الرحمن اور خانزادہ خان کا بھی تعلق اسی یوسی سے ہے ۔
نومنتخب سنیٹر ذیشان خانزادہ سابقہ سینیٹر خانزادہ خان کے صاحبزادے ہیں جبکہ سینیٹر فیصل سلیم الرحمن سابقہ چئیرمین بورڈ آف انویسٹمنٹ خیبرپختونخوا رہ چکے ہیں اور معروف کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
پارہوتی کے ایک رہائشی زاہد حسین سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے سوال پوچھا کہ یونین کونسل سے اب تین سینیٹرز ہونے سے وہ کیا بہتری کی توقع رکھتے ہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ سینیٹرز کا تعلق امیر خاندانوں سے ہوتا ہے اور ان کے پاس عوام کے لیے وقت نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا: ’جب یہ لوگ سینیٹرز نہیں تھے تو ان سے ملنا مشکل تھا تو اب یہ لوگوں سے کیا ملیں گے اور کس طرح یہ عوام کے مسائل سے باخبررہیں گے؟‘