شومئی قسمت جمال خاشقجی قتل سے متعلق امریکی سی آئی اے کی رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی جب سعودی عرب کے دارالحکومت سمیت مملکت کے مختلف شہروں پر یمن سے ایرانی ساختہ بارودی ڈورنز اور بیلسٹک میزائیلوں کی بارش جاری تھی۔
الریاض کے باسیوں کو 1991 میں صدام حسین کا ’سکڈ‘ میزائل کا وہ حملہ یاد آ گیا جو انہوں نے کویت پر عراقی فوج کے قبضے کے وقت مملکت پر داغا تھا۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ کویت کی عراقی قبضے سے آزادی بھی 26 فروری کو ممکن ہوئی۔
ان حملوں کا جواب دینے کی مکمل صلاحیت کے باوجود سعودی ائر ڈیفنس نے ان بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز کو ہدف تک پہنچنے سے روکنے کا دفاعی اقدام کرنے پر ہی اکتفا کیا۔ عوام کو زندگی معمول کے مطابق گزارنے کا عملی درس دیتے ہوئے حملوں کے دو گھنٹوں بعد ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان الریاض کے ’دراعیہ‘ ٹریک میں بنفس نفیس فارمولا کار ریس کے فائنل میں انعامات تقسیم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
عرب فوجی اتحاد کے ترجمان بریگیڈئر جنرل ترکی المالک کے پیش کردہ اعداد وشمار کے مطابق حالیہ چند برسوں کے دوران سعودی ائر ڈیفنس 536 ڈرونز اور 346 بیلسٹک میزائل تباہ ہدف تک پہنچنے سے پہلے تباہ کر چکا ہے۔
ایسے میں دنیا کا ایرانی جرائم پر آنکھیں موند لینا اور دوسری جانب ایک’نادر‘ واقعے کو بنیاد بنا کر سعودی عرب پر چڑھ دوڑنا منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟ خاشقجی کی ہلاکت میں ملوث افراد کو قید سمیت سزائے موت سنائی گئی، جسے مرحوم کے لواحقین نے نیک جذبات کا اظہار کرتے ہوئے معاف کر دیا۔ مرحوم کے سب سے بڑے صاحبزادے اور معروف ماہر معاشیات صلاح خاشقجی اس نیکی میں پیش پیش تھے۔
ادھر متعدد مغربی تجزیہ کار خاشقجی قتل سے متعلق امریکی سی آئی اے کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے ’معلومات سے عاری اور سو فیصد تجزیے پر مبنی دستاویز قرار دے رہے ہیں۔‘ ان کی رائے میں ’سی آئی اے رپورٹ، تجزیوں اور خیالات کی ایسی آمیزش دکھائی دیتی ہے جس کی بنیاد واضح حقائق پر نہیں رکھی گئی۔ جو لوگ اس رپورٹ پر خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں وہ بھی جانتے ہیں کہ کسی غیر جانبدار تحقیق کی کسوٹی پر سی آئی اے کی رپورٹ اپنی اعتباریت قائم نہ رکھ سکے گی۔‘ ذرائع ابلاغ میں ہونے والے تجزیوں پر مبنی اس رپورٹ کے مندرجات کو تادیر سات پردوں میں چھپا کر رکھا گیا اور بالآخر نئی امریکی انتظامیہ نے اسے مشتہر کر کے اپنے لیے ایک نیا امتحان کھڑا کر لیا ہے۔
صورت حال پر نظر رکھنے والے غیر جانبدار حلقے بخوبی جانتے ہیں کہ گذشتہ تین برسوں کے دوران خاشقجی کیس سے متعلق ذرائع ابلاغ کو لیک کی گئی تمام خفیہ معلومات صرف قیاس آرائیوں پر مشتمل تھیں۔
اب یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ اس معاملے کو بڑے پیمانے پر سیاسی رنگ دے کر گروہی اور نظریاتی مفادات پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔
خاشقجی کیس اپنی نوعیت کا واحد معاملہ نہیں کہ جس کے بارے میں غیر مصدقہ معلومات مشہتر کی جا رہی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ اور روسی ایجنٹوں والا تنازع ابھی لوگوں کے ذہنوں سے محو نہیں ہوا جس میں سابق صدر کے مخالف اخبارات روسی حکومت اور ٹرمپ کی انتخابی مہم چلانے والوں کے درمیان مبینہ ساز باز کے بارے میں امریکی خفیہ ایجنسیوں کی لیک کردہ معلومات شائع کرتے رہے۔ اسی بنا پر امریکہ کے سابق انٹیلی جنس سربراہ جان برنن صدر ٹرمپ پر کھلے عام ’بغاوت‘ اور ’دشمن کی ایجنٹی‘ کا الزام لگاتے رہے۔
اس کے بعد کی کہانی سب کو معلوم ہے کہ کیسے 50 ملین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کر کے رابرٹ ملر کے ذریعے اس معاملے کی خصوصی تحقیقات کروائی گئیں جس میں بالآخر ٹرمپ کو تمام الزامات سے بری الذمہ قرار دیتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا کہ ٹرمپ کے خلاف انٹلیجنس اداروں کے تمام الزامات کا ہدف سیاسی مقاصد کا حصول تھا۔
سابق امریکی صدر کے مشیر برائے امور مشرق وسطیٰ اور ان کے داماد جیرڈ کشنر نے ابھی منصبی ذمہ داریاں نہیں سنبھالیں تھیں کہ ان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی گئی اس مہم کے پیچھے بھی امریکی خفیہ اداروں کا ہاتھ بیان کیا جاتا ہے۔
بعد ازاں ہونے والی تحقیقات میں یہ بات ثابت ہو گئی کہ جیرڈ کشنر سے متعلق خفیہ لیکس بھی حقائق کی بجائے تجزیے اور بے بنیاد اندازے ثابت ہوئے۔ خفیہ ہاتھوں کی گھڑی جعلی کہانیوں کا مقصد سیاسی مفاد حاصل کرنا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ امریکہ کے خفیہ ادارے یہ حرکت بیرونی قوتوں کے لیے نہیں بلکہ وائٹ ہاؤس کے ’مکینوں‘ کے خلاف ہی کرتے رہے ہیں!!
ماضی میں سی آئی اے کی طرف سے ایسے اندازے اور تخمینے لگانے پر ڈیموکریٹس اور ری پبلیکنز دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سابق صدور امریکی خفیہ ایجنسیوں کے کردار کے شاکی رہے ہیں۔ سابق امریکی صدر نکسن ایسے تخمینے لگانے والوں کو ’مسخرہ‘ قرار دے چکے ہیں۔ صدر لنڈن جانسن یہ سوال کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہو گئے کہ ’امریکی سی آئی اے کے کمپاؤنڈ میں ایسے تجزیہ کاروں کا کیا کام ہے؟‘
یادش بخیر! امریکی خفیہ اداروں کی داغ بیل ڈالنے والے سابق صدر ٹرومین نے واشنگٹن پوسٹ [1963] میں اپنے ایک طویل مضمون میں خود ان خفیہ اداروں کی سرگرمیوں سے متعلق شکایات کا انبار لگا دیا تھا۔ انہوں نے خفیہ اداروں کی تطہیر کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے یہ بات برملا کہی کہ ’انٹلیجنس اداروں کی اصلاح احوال ضروری ہو گئی ہے۔ اس ضمن میں سب سے ضروری بات یہ تھی کہ خفیہ اداروں کے ذریعے امریکی صدر کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے اور انہیں غیر منطقی اقدامات کرنے پر مجبور کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خفیہ اداروں کی کارکردگی رپورٹس دیکھ کر صدر ٹرومین جان گئے تھے کہ امریکی انٹلیجنس تفویض کردہ کام کی بجائے کسی اور راہ پر چل نکلی ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ خفیہ اداورں کو اپنے اصل کام کی طرف لوٹنا چاہے تاکہ خاموشی کے ساتھ وہ کام معروضی انداز میں سرانجام دیا جا سکے جس کا مینڈیٹ انہیں تفویض کیا گیا ہے۔ اس لیے انہیں مینڈیٹ سے متجاوز ایجنڈے کی راہ پر چلنے سے باز رہنا ہوگا۔ وہ سمجھتے تھے کہ خفیہ اداروں کو ملنے والی معلومات کسی اور محکمہ تک پہنچانے کی بجائے براہ راست صدر کے پاس آنی چاہیں تاکہ وہ کسی آلائش کے بغیر درست معلومات کی بنا پر فیصلہ کر سکیں۔
ٹرومین خفیہ اداروں کو سیاسی اور گروہی ایجنڈے سے پاک رکھنا چاہتے تھے تاکہ بیرونی دباؤ سے محفوظ رہ سکیں۔ ان پر شخصی پسند وناپسند اثر انداز نہ ہونے پائے۔ خاشقجی رپورٹ میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اسے لیک کردہ معلومات کی روشنی میں سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے تیار کیا گیا تاکہ مخصوص مقصد کا حصول یقینی ہو سکے۔
اس رپورٹ میں شامل تمام معلومات ترک رونامہ ’ینی شفق‘ میں پہلے ہی شائع ہو چکی تھیں جس کی وجہ سے مغربی مبصرین امریکی سی آئی اے کو مورد الزام ٹہرا رہے ہیں۔ اس انداز سے کام کرنے والی خفیہ ایجنسیاں بآسانی غیرملکی ایجنڈے کا ہدف بنتی ہیں اور انہیں بعض اوقات ایسی معلومات بھی فراہم کی جاتی ہیں جو بسا اوقات خود ان کے لیے وبال جان بن جاتی ہیں۔
یہ اب کوئی نئی بات نہیں بلکہ ایک طویل تاریخ ہے، خاشفجی رپورٹ اس کا تازہ ترین ایڈیشن ہے۔ اندازوں کی بنیاد پر مرتب کردہ تین صفحات کی اس رپورٹ سے امریکی داخلی سیاست کی بو آتی ہے۔
رپورٹ پر سامنے آنے والے ردعمل سے ان حلقوں کی امیدوں پر اوس پڑ چکی ہے کہ جو سعودی عرب اور امریکہ کے 80 برس پر پھیلے مختلف شعبوں میں تعلقات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ ایک لمحے کو سوچیں اگر ریاض۔واشنگٹن تعلقات زمانے کے اتنے سرد گرم نہ دیکھ چکے ہوتے تو خطے کی حالات کیا ہوتے؟
اسی حقیقت کا بیان رپورٹ کے بعد سامنے آنے والے متعدد امریکی عہدیداروں کے بیانات میں ملتا ہے۔ سعودی وزارت خارجہ سی آئی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی تعلقات کو نئی جہت پر استوار کرنے کا عندیہ ظاہر کر چکی ہے۔