گلزار کی فلم ’لیکن‘ دراصل ریوا نامی ایک لڑکی کی کہانی ہے جو زندگی اور موت کے سنگم پر بیٹھی مکتی کے انتظار میں ہے۔ وہ ایک گلوکارہ ہے جو گلزار کے الفاظ میں اپنی کتھا یوں سناتی ہے
میں ایک صدی سے بیٹھی ہوں
اس راہ سے کوئی گزرا نہیں
کچھ چاند کے رتھ تو گزرے تھے
پر چاند سے کوئی اترا نہیں
ریوا آسمان کو بوڑھے بابے سے تشبیہ دیتی ہے جو سب کی جھولی میں کچھ نہ کچھ ڈالتا ہے لیکن اس کا انتظار مسلسل طول کھینچتا جاتا ہے۔ آخر اس کی آواز سے مسحور سمیر نامی ایک شخص یہ بیڑا اٹھاتا ہے اور اس کو نجات دلاتا ہے۔
فلم کی سب سے بڑی خصوصیت ہر دی ناتھ کی لازوال موسیقی اور گلزار کی انوکھی لیکن مسحور کن شاعری ہے۔ خاص طور پر اس کا گیت ’یارا سیلی سیلی برہا کی رات کا جلنا‘ آج بھی دلوں کو گرما دیتا ہے۔
لیکن اس فلم کے متعلق ایک کتاب نے کچھ ایسے حیرت انگیز در وا کیے کہ بے اختیار مصنفین کی باریک بینی کو داد دینا پڑی۔
کتاب کا نام ہے ’وقت سے پرے‘ اور نیچے نسبتاً باریک سطر جگمگاتی ہے ’گلزار فہمی، لیکن کے تناظر میں۔‘ اس کتاب کے مصنفین گل شیر بٹ، صائمہ زیدی اور ڈاکٹر آسمان اوزجان ہیں۔
تکنیکی اعتبار سے ایک انفرادی چیز یہ ہے کہ تقریباً پوری کتاب مکالمے کی شکل میں چلتی ہے اور گلزار صاحب کی شاعری اور فلم میں چھپے چند اہم ترین گوشوں کا اجتماعی مطالعہ کرتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فلم کا ایک بنیادی موضوع وقت ہے جس کی سائنسی اور روحانی کیفیات گویا انگلی تھامے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ماضی، حال اور مستقبل کی انسانی تقسیم ریزہ ریزہ ہو کر چند ایسے حقائق منکشف کرتی ہے جو عقل کے دائرہ کار سے شاید ماورا ہیں۔ کتاب کے ایک باب ’اب جسم میں بھٹکتا ہوں‘ دراصل وقت کے متعلق مختلف تصورات اور گلزار کی فلم یا شاعری میں اس کے بیان کا نہایت عمدگی سے احاطہ کرتا ہے۔ اس میں سائنسی، مذہبی، روحانی اور شاعرانہ حوالے سبھی موجود ہیں۔
فلم کی کہانی میں صحرا ایک بنیادی علامت ہے جو پھیلی ہوئی کائنات میں انسانی بے بسی کی داستان ہے۔ گلزار صحرا کی ریت سے کٹتا ہوا ریوا کا اندرون کیسی بے ساختگی سے لفظوں میں قید کرتے ہیں۔
چڑھتے دن کی چھاؤں بٹوروں
تِل تِل سب جل جائے
ڈھلتی سانجھ کی راکھ کریدوں
ریت میں سب رَل جائے
نہ مل پائی نہ بچھڑی میں
کیسو یہ سنجوگ رے
باوری بولیں لوگ رے
یہ کتاب پڑھتے ہوئے قاری بھی صحرا میں ریوا کے ساتھ محو سفر ہو جاتا ہے۔ مختلف صفحات میں بکھری صحرا کی ریت چیونٹیوں کی طرح آپ کے اندر رینگنے لگتی ہے۔ کتاب میں صحرا کا بیان اتنا سُچا ہے کہ جس نے صحرا نہیں دیکھا وہ بھی ریت میں اپنے پاؤں دھنستے محسوس کرتا ہے۔
ذکر گلزار صاحب کی شاعری کا ہو، افسانوں یا فلم کا تو کیسے ممکن ہے اس میں ریل گاڑی کا ذکر نہ آئے۔ گلزار کے شاہکار افسانے راوی پار میں ریل کے اندر سے ماں بچے کو چھپاک سے باہر پھینک دیتی ہے۔۔۔ ہائے ایسا دل دہلا دینے والا منظر! بمبئی نامی فلم میں ریل کی چھت پر ھیرو چل چھیاں چھیاں گانے لگتا ہے۔۔۔ اف ایسی رومانوی فضا! اجازت فلم کی طرح لیکن میں بھی ریل اپنی پوری گونج کے ساتھ چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔ جب ایسا ہے تو کیسے ممکن تھا کتاب کے مصنفین اسے نظر انداز کر دیتے۔ یہاں بھی معاملہ وہی ہے کہ موضوع کے ممکنہ حد تک تمام اہم پہلوؤں پر خوبصورت مکالمے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ان مکالموں سے نہ صرف گلزار صاحب کی ریل سے وابستگی بلکہ بطور انسان ہم سب کا رویہ نئے انداز میں سامنے آتا ہے۔
اب آخر میں ایک ایسے باب کا ذکر ضروری ہے جس نے ذاتی طور پر مجھے سرشار کر دیا اور وہ ہے ’آنکھ سے چھنتے سپنے، ہونٹ سے چکھنا چاہوں۔‘
راجستھانی فضا، فوک موسیقی، راگ راگنیوں اور گویوں کا ذکر ایسے سریلے انداز میں کم ہی پڑھنے کو ملتا ہے۔ فلم میں شامل موسیقی پر سیر حاصل تبصرہ تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ طبیعت کی شادابی کا بہت سا وافر سامان لوک کلچر کی خوشبو کی صورت میں موجود ہے۔
مثال پبلشرز کی جاذب نظر طباعت اور مصنفین کا دلچسپ مدھم مکالمہ دیر تک گونجتا رہتا ہے اور کتنی ہی دیر آپ خود فلم کے کردار بن کر زندگی کے صحرا کی تپش محسوس کرنے لگتے ہیں۔