پاکستانی فنکاروں اور شوبزنس سے وابستہ شخصیات نے پنجاب اسمبلی کی جانب سے منظور کی جانے والی قرارداد، جس میں پیمرا سے مذکورہ شخصیات کے رمضان کی خصوصی نشریات میں شرکت کرنے پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے، کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
اداکارہ ریما خان جو اس سال ایک چینل پر رمضان ٹرانسمیشن کی میزبانی بھی کررہی ہیں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی قرارداد کو منظور کرنے کے کچھ قواعد ہوتے ہیں اور اخلاقی قواعد سب کے لیے ہوتے ہیں اور ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا: ’اس لیے اگر کوئی بھی شخص اخلاقیات سے تجاوز کرتا ہے اسے نہ تو ٹی وی پر آنا چاہیے اور نہ ہی اسمبلی میں بیٹھنا چاہیے۔‘
اسی بارے میں معروف اداکار عمران عباس نے کہا کہ وہ اس سال بھی رمضان ٹرانسمیشن کررہے ہیں اور انہیں اب تک اس بارے میں باضابطہ یا سرکاری سطح سے کچھ نہیں بتایا گیا تاہم انہوں نے سوال اٹھایا کہ لوگ کیوں سمجھتے ہیں کہ ہمارا دین سے تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کا بھی رب سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا کسی اور کا۔
ان کا کہنا تھا: ’عوام فنکاروں سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں، وہ فنکاروں کی بات سنتے ہیں اور اس لیے عوام تک کوئی بات پہنچانے کا مؤثر ذریعہ فنکار ہوتے ہیں کیونکہ ان کے مداحوں کی ایک بڑ ی تعداد ہوتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ لوگ میزبان ہوتے ہیں اور وہ صرف سوال کرتے ہیں آگے سے جواب علماء ہی دیتے ہیں۔ ٹی وی پر بیٹھ کر کوئی فنکار فتویٰ نہیں دیتا وہ صرف سوال کرتا ہے کیونکہ یہاں فنکار علماء اور عوام کے درمیان ایک پل کا کردا ادا کرتا ہے۔
فلم اسٹار علی رحمان خان نے پوچھا کہ اگر انٹرٹینمینٹ انڈسٹری کے لوگ کسی ٹی وی شو کو نہیں چلائیں گے تو کون چلائے گا۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی میزبان اکیلا کام نہیں کرتا بلکہ اس کے پیچھے ایک تحقیق کرنے والی پوری ٹیم ہوتی ہے جو اس کی مدد کرتی ہے اور اس کے سامنے مذہبی اسکالر بیٹھے ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شوبز سے وابستہ افراد پر پابندی عائد کرنے کی تجویز سمجھ سے بالاتر ہے، کیونکہ کسی بھی تین چار گھنٹے کی نشریات کو چلانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ اسلام ، خدا اور رسول کی باتیں کرنے کا حق ہر ایک کا ہے اور کوئی اسے کسی سے چھین نہیں سکتا۔