جہاں گلوکارہ میشا شفیع کا ساتھی گلوکار علی ظفر پر ہراسانی کا مقدمہ عدالت میں چل رہا ہے، وہیں اس کیس نے ایک اور موڑ لے لیا ہے اور اب معاملہ عدالت عظمیٰ تک جا پہنچا ہے۔
گذشتہ سال میشا کی جانب سے ہراسانی کا الزام لگائے جانے کے بعدعلی ظفر نے ان پر ہتک عزت کا دعویٰ کر رکھا ہے، جس کی سماعت پر ہفتے کو میشا غیرحاضر رہیں اور ان کے وکیل نے ان کی جانب سے سماعت کرنے والے سیشنز جج شکیل احمد پر عدم اعتماد کرتے ہوئے انہیں تبدیل کرنے کی درخواست سیشنز جج خالد نواز کو جمع کروا دی۔
اس پر علی ظفر کے وکیل رانا انتظار نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’اگر میشا نے معزز جج صاحب پر عدم اعتماد ہی کرنا تھا تو وہ گذشتہ ہفتے کی سماعت کے فوراً بعد یہ درخواست جمع کرواتی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ وہ کیس کو لٹکانا چاہتی ہیں۔‘
میشا کی دائر کردہ درخواست پر علی ظفر کے وکلا ٹویٹر پر بھی سرگرم نظر آئے۔ بیریسٹر عمبرین قریشی، جو علی ظفر کی کیس کو دیکھ رہی ہیں، انہوں نے ٹویٹ کی کہ آٹھویں مرتبہ ہمارے گواہوں جن میں خواتین بھی شامل ہیں انہیں کورٹ سے واپس آنا پڑا کیونکہ مخالف پارٹی [میشا شفیع] نے ان معزز جج کو تبدیل کرنے کی درخواست عدالت میں جمع کروا دی ہے۔
دوسری جانب میشا شفیع کے وکیل ایڈووکیٹ فرہاد علی شاہ کا کہنا ہے کہ آئین میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ جج تبدیل کرنے کے لیے کوئی خاص دن ہونا چاہئیے۔ انہوں نے کہا کہ ضابطہ دیوانی کے سیکشن 24 کے مطابق عدالت میں درخواست کبھی بھی دائر کی جاسکتی ہے۔
ایڈووکیٹ فرہاد علی شاہ نے کہا: ’میشا اپنی والدہ کے پاس کراچی میں تھیں اسی لیے پہلے درخواست جمع نہیں کروا سکیں۔ یہ کہنا غلط ہے کہ میشا کیس کو لٹکانا چاہتی ہے۔ درخواست کسی ٹھوس بنیاد پر ہی جمع کروائی گئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ درخواست میں میشا شفیع نے موقف اختیار کیا ہے کہ ہتک عزت کے دعوے پر سماعت کرنے والے جج جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور گواہوں کے بیانات قلمبند کرواتے وقت بھی موجودہ جج نے گواہوں کو جوابات دینے میں معاونت کی۔
درخواست میں لکھا ہے: ’موجودہ جج میرے وکلا پر بلاوجہ برہم بھی ہوئے۔ سیشنز جج لاہور فوراً ہتک عزت کے دعوے کو دوسرے جج کے پاس منتقل کرنے کا حکم دیں۔‘
میشا کی اس درخواست پر سماعت بدھ کو ہو گی۔
دوسری جانب میشا شفیع اور علی ظفر کا تنازع عدالت عظمیٰ تک پہنچ گیا جہاں میشا شفیع نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔
میشا کی قانونی ٹیم کا موقف ہے کہ ٹرائل کورٹ نے ان کی درخواست پر گواہوں پر جرح موخر کرنے کی اجازت نہیں دی۔ عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی درخواست کے مطابق، ٹرائل کورٹ نے کہا کہ گواہوں پر جرح بیان کے فوری بعد ہوگی جبکہ میشا کے وکیل جرح تمام گواہوں کے بیانات کے بعد کرنے کی درخواست کر رہے تھے۔
علی ظفر کے وکیل رانا انتظار اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ پہلے گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے جائیں اور پھر اس کے بعد جرح ہو۔ دوسری جانب میشا کے وکیل فرہاد علی شاہ کا کہنا ہے کہ علی ظفر خود کیس کی سماعت کے لیے عدالت آتے نہیں اور کیس کو لٹکا رہے ہیں اسی لیے ہم نے درخواست دی ہے کہ پہلے ان کے گواہ پورے ہو جائیں اس کے بعد اس پر جرح کی جائے۔
عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ گواہوں کو جانے بغیر صرف ان کے بیان کی بنیاد پر جرح کرنا ممکن نہیں، گواہ پیش کرنا ایک فریق اور اس پر جرح دوسرے فریق کا حق ہے۔
میشا کے وکلا کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے بھی ٹرائل کورٹ کے فوری جرح کے فیصلے کی توثیق کی تھی۔
انہوں نے درخواست کی کہ عدالت عظمیٰ گواہوں پر جرح کی اجازت دیتے ہوئے ہائی کورٹ کا حکم کالعدم قرار دے۔
اب جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ میشا شفیع کی اس درخواست پر سماعت 9 مئی کو کرے گا۔