اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے امیدوار اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کے عہدے سے ہٹانے کی درخواست خارج کر دی ہے۔
عدالت نے یوسف رضا گیلانی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے فیصلے میں کہا کہ ’عدالت امید کرتی ہے کہ اراکین اسمبلی مجلس شوریٰ کے فورم پر ایسے تنازعات حل کریں گے۔‘
عدالت نے یوسف رضا گیلانی کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے خلاف پی ڈی ایم کے متفقہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کی درخواست قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ بدھ کو ہی محفوظ کر لیا گیا تھا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’پارلیمنٹ قومی سطح پر معاملات حل کرنے کا فورم ہے، کیا اپنا معاملہ حل نہیں کر سکتی؟‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عدالت پارلیمنٹ کی خود مختاری سے متعلق بہت زیادہ احتیاط سے کام لیتی ہے۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ میں سات مسترد ووٹوں کے حوالے سے کیس کی سماعت بدھ کو کی۔
دوران سماعت فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’ 12 مارچ کو چیئرمین سینیٹ کے الیکشن ہوئے جس میں صادق سنجرانی کو چیئرمین ڈیکلیئر کیا گیا اور سات ووٹوں کو مسترد کرکے یوسف رضا گیلانی کے ہارنے کا اعلان کردیا گیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’یوسف رضا گیلانی کے نام پر مہر لگی لیکن اسی خانے کے اندر تھی جبکہ پریزائیڈنگ آفیسر نے خانے کے اندر نام پر اسٹیمپ لگانے پر ووٹ مسترد کیے۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’ہمیں پریزائیڈنگ افسر نے کہا کہ باکس کے اندر جہاں چاہیں مہر لگائیں۔ شیری رحمان، سعید غنی اور میں نے بیان حلفی عدالت میں دیا ہے کہ سیکرٹری سینیٹ نے خانے کے اندر کہیں بھی مہر لگانے کا کہا تھا۔ سیکرٹری سینیٹ کے کہنے کے بعد ہی ہم نے اپنے سینیٹرز کو کہیں بھی مہر لگانے کا کہا تھا۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا: ’کس قانون کے تحت چیئرمین سینیٹ کے الیکشن ہوئے ہیں؟‘
فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 60 کے تحت یہ الیکشن ہوئے ہیں، جس کے بعد عدالت نےانہیں آرٹیکل 60 پڑھنے کی ہدایت کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی اس عمل میں شامل تھا؟ کیا چیئرمین سینیٹ الیکشن میں الیکشن کمیشن کی کوئی شمولیت نہیں تھی؟
فاروق ایچ نائیک نے بتایا: ’الیکشن کمیشن سے کوئی اس عمل میں شامل نہیں تھا اور نہ ہی الیکشن کمیشن کا کسی قسم کا کردار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ووٹ کیسے مارک ہوگا، اس کا ذکر رولز میں موجود نہیں ہے۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے قانونی نکتہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’پارلیمنٹ کی پروسیڈنگ کو استثنیٰ حاصل ہے، آرٹیکل 69 سے کیسے باہر جا سکتے ہیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ اگر الیکشن کمیشن کا بھی کوئی کردار نہیں تو پھر پارلیمان کی اندرونی کارروائی کے استحقاق کے لیے آئین کے آرٹیکل 69 سے کیسے نکلیں گے۔ پارلیمان کی جو اندرونی کارروائی ہوتی ہے وہ عدالت میں چیلنج کی جا سکتی ہے۔‘
اس موقع پر یوسف رضا گیلانی کے وکیل نے دلائل دیے کہ ’چیئرمین سینیٹ کا الیکشن پارلیمنٹ کی کارروائی نہیں ہے۔ 12 مارچ کے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں پارلیمان کا بزنس یا پروسیجر شامل نہیں ہے۔ میں عدالت میں پروسیجر نہیں بلکہ الیکشن کو چیلنج کر رہا ہوں۔‘
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ’اگر پروسیجر میں کوئی بے ضابطگی ہو تو وہ عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکتی، لیکن رولز میں بیلٹ پیپر یا ووٹ سے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا، رولز اس حوالے سے خاموش ہیں۔ جب رستے بند ہو جائیں اور قانون خاموش ہو تو وہاں تو رستہ آئین خود نکالتا ہے۔‘
فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ ’پریزائیڈنگ افسر نے کہا تھا کہ میرے ووٹ مسترد کرنے کے فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کر لیں۔‘
جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا: ’نائیک صاحب کیا کبھی کسی کورٹ نے ایسا کیس سنا ہے؟‘ فاروق نائیک نے جواب دیا: ’یہ تاریخ میں پہلی بار ہے کہ چیئرمین سینیٹ کا الیکشن عدالت میں چیلنج ہوا ہے۔ آپ جو بھی فیصلہ دیں گے وہ ایک تاریخی فیصلہ ہو گا۔‘
یادرہے کہ انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر قانونی ماہر اور سابق جج شاہ خاور سے رائے لی تھی، جن کا کہنا تھا کہ ’جس معاملے کی آئین میں تشریح نہ ملے، وہ معاملہ آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ یا آرٹیکل 184/3 کے تحت سپریم کورٹ میں چیلنج ہو سکتا ہے تاکہ عدالت اس کی تشریح کر سکے جو آئندہ بھی حوالے کے لیے استعمال ہو سکے۔‘