دنیا کی سب سے اہم بحری گزر گاہ نہر سوئز میں ایک دیو ہیکل مال بردار بحری جہاز پھنسنے کے بعد گذشتہ کئی روز سے یہاں سے گزرنے والی بحری ٹریفک رکی ہوئی ہے۔
خدشہ ہے کہ اگر اس تجارتی گزر گاہ کو جلد بحال نہ کیا گیا تو دنیا میں تجارتی سپلائی لائن بند ہونے سے عالمی معاشی بحران جنم لے سکتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق مصر کے صحرائے سینا سے گزرنے والی اس تنگ نہر سے روزانہ 10 ارب ڈالرز مالیت کا بحری ٹریفک گزرتا ہے۔
نہر سوئز میں پھنسے ہوئے ’ایور گیون‘ نامی کنٹینر جہاز کو ہٹا کر بحیرہ احمر سے بحیرہ روم کو ملانے والے اور یورپ اور ایشیا کے درمیان جہاز رانی کے سب سے مختصر بحری راستے پر ٹریفک کی بحالی کے لیے کوششیں تاحال جاری ہیں۔
بحری تجارت کے لیے یہ راستہ کتنا ضروری ہے؟
تمام عالمی تجارت کا تقریباً 10 فیصد 120 میل لمبی (193 کلومیٹر لمبی) انسان کی بنائی ہوئی اس نہر سے گزرتا ہے جو مشرق اور مغرب کے درمیان ہزاروں ٹینکرز اور مال بردار بحری جہازوں کو افریقہ کے جنوبی سرے کے لمبے سفر سے بچاتا ہے۔
معروف بحری جریدے ’لائیڈز لسٹ‘ کے ایک اندازے کے مطابق یومیہ 9.6 ارب ڈالرز مالیت کا سامان اس نہر سے گزرتا ہے۔ لائیڈز کا کہنا ہے کہ اس ٹریفک کے ذریعے روزانہ تقریباً 5.1 ارب ڈالرز کا تجارتی سامان مغرب کی طرف اور 4.5 ارب ڈالرز مالیت کا سامان مشرق کی جانب منتقل ہوتا ہے۔
اس میں سے تقریباً ایک چوتھائی ٹریفک کنٹینر بردار بحری جہازوں پر مشتمل ہے۔ جریدے کا کہنا ہے کہ اوسطاً دن میں 50 سے زائد جہاز نہر کو عبور کرتے ہیں جن میں 1.2 ارب ٹن کارگو لدا ہوتا ہے۔
اس بندش سے دنیا کی سپلائی چین پر کیا اثر پڑے گا؟
جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے اکنامکس پروفیسر شرت گنپتی کا ماننا ہے کہ جب ایشیا اور یورپ کے درمیان سامان بھیجنے کی بات کی جاتی ہے تو اس کے لیے ریلوے یا ٹرکوں کے ذریعے نقل و حمل جیسا کوئی عملی متبادل موجود نہیں۔
انہوں نے کہا کہ نہر سوئز میں پیدا ہونے والی اس رکاوٹ سے سپلائی چین بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے جیسا کہ یورپی مصنوعات، کپڑوں کے لیے بھارت سے آنے والی روئی، مشرق وسطیٰ سے پلاسٹک منصوعات کے لیے پٹرولیم مصنوعات اور چین سے آٹو پارٹس اور دیگر خام مال کی رسد میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
یونیورسٹی آف اوریگون کے ماہر معاشیات پروفیسر وان فوونگ وونگ نے کہا: ’حقیقت یہ ہے کہ تجارتی نیٹ ورک میں دستیاب سب سے زیادہ اہم بحری گزر گاہ مسدود ہے جس سے پوری دنیا پر معاشی اثرات مرتب ہوں گے۔‘
براعظم امریکہ مغربی ساحلوں سے بحر الکاہل کے ذریعے ایشیا کے لیے تجارتی راستہ موجود ہونے کی وجہ سے امریکہ اور اس براعظم کے دیگر ممالک پر اس رکاوٹ کے براہ راست اثرات کم ہوں گے لیکن اس کے باوجود یورپ سے درآمدات میں تاخیر ہوسکتی ہے۔
کیا سپلائی چین خطرے میں ہے؟
کرونا وبا کے باعث نہر سوئز پر اضافی دباؤ اور خریداری میں اضافے جیسے امور کے بعد اس اہم بحری گزر گاہ کی بندش تجارتی سپلائی چین کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے۔
جیسا کہ نارتھ کیرولینا سٹیٹ یونیورسٹی کی لاجسٹک ماہر جولی سوان نے کہا: ’ہمارے پاس پہلے ہی بہت ساری چیزیں ہیں جن سے دنیا میں مصنوعات کی سپلائی چین کو خطرہ ہے اور اب آپ اس میں ایک اور رکاوٹ کا اضافہ کر سکتے ہیں۔‘
صارفین اس سے کس طرح متاثر ہوں گے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ ممکن ہے کہ اگر نہر سوئز کی بندش مزید کچھ دن جاری رہی تو امریکی صارفین اس کا کچھ اثر محسوس کریں گے۔
ایشیا سے امریکہ تک تیار شدہ مصنوعات بحر الکاہل کے راستے جاتی ہیں۔ تاہم انہی مصنوعات، جن کے حصے یورپ میں اسمبل ہو کر امریکہ بھیجے جاتے ہیں، اس نہر کی بندش سے تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں۔
موڈی کے ماہر معاشیات مارک زندی نے کہا کہ نہر سوئز کی بندش کا امریکی یا عالمی معیشتوں پر اس وقت تک زیادہ اثر نہیں پڑے گا جب تک یہ مزید چند ہفتوں یا مہینوں تک بحال نہ ہو۔
تیل کی تجارت پر اثرات
مارک زندی نے کہا اس سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا اگر اس رکاوٹ سے کار مینوفیکچررز کو آٹو پارٹس کی کھیپ میں تاخیر ہوتی ہے تو جرمنی کی معیشت کو نقصان ہوسکتا ہے۔
گنپتی نے کہا کہ رکاوٹ سے سپین، اٹلی اور فرانس گیس کی قیمتوں میں اضافہ دیکھ سکتے ہیں کیونکہ وہ نہر سوئز کے ذریعے تیل کی ترسیل پر انحصار کرتے ہیں۔