انڈپینڈنٹ اردو کی خصوصی سیریز ’شوق کا مول نہیں‘ کی تیسری قسط پیشِ خدمت ہے جس میں ہم آپ کو لاہور کے ایک ایسے شوقین سے ملوا رہے ہیں جنھوں نے اپنی چھت پر کیکٹس کے پودے پالنے شروع کیے اور آج پوری دنیا میں ان کا نام ہے۔
کیکٹس کی صرف چند اقسام آپ نے قبرستانوں میں دیکھی ہوں گی، جنہیں آپ چھتر تھور یا ناگ پھنی کے نام سے جانتے ہیں۔ گول گول مکی ماوس کے کانوں جیسا پودا۔ اسی پر کیکٹس کی دنیا ختم نہیں ہو جاتی۔
اس پودے کی ہزاروں اقسام ہیں جن کی پہچان کرانے کے واسطے ماہرین نے کتابوں کے دفتر لکھ مارے، پوری پوری ویب سائٹس ان کے نام وقف ہیں، لوگ اپنی ساری عمر کی جمع پونجی لگا کر انہیں جمع کرتے ہیں، پالتے پوستے ہیں اور انہیں دیکھ دیکھ کے خوش ہوتے ہیں۔
’شوق کا مول نہیں‘ سیریز سے مزید
حاجی امداد حسین بھی انہی لوگوں میں سے ایک ہیں۔ یہ کپڑے کا بزنس کرتے تھے۔ اچھے خاصے کاروباری آدمی تھے۔ پھر انہیں کیکٹس کا شوق ہوا اور انہوں نے گھر کی چھت پر یہ پودے پالنے شروع کر دیے۔
کیکٹس پالنے کے لیے چھت اس لیے بہتر سمجھی جاتی ہے کیوں کہ یہ ’فُل سن‘ مانگتا ہے۔ کھلی جگہ اور مکمل دھوپ۔ باقی پھر اس دھوپ میں حسب ضرورت سبز رنگ والا نیٹ لگا کے اس کی تپش پر قابو پایا جاتا ہے۔ تو حاجی صاحب جب کاروبار سے واپس آتے تو ان کی شامیں اب اپنی چھت پر گزرتی تھیں۔ کیکٹس یا کم از کم باغبانی کا شوقین ہی جان سکتا ہے کہ اپنے ہاتھ سے لگائے پودوں کو بڑھتے دیکھنا اور ان پر پھول آتے دیکھنا کیسے مزے کی چیز ہوتی ہے۔ آہستہ آہستہ حاجی امداد صاحب کی کلیکشن اتنی زبردست ہو گئی کہ دور دور سے لوگ ان کے پودے دیکھنے آیا کرتے۔
اسی زمانے میں انہوں نے باغبانی کے مختلف مقابلوں میں حصہ لینا بھی شروع کیا۔ ان کے پاس موجود پودے ایسے انوکھے ہوتے تھے کہ اکثر پہلی تین میں سے ایک پوزیشن انہی کے پاس ہوتی۔ اسی زمانے میں حاجی صاحب سیاست میں آئے اور کونسلر بن گئے۔
کونسلر بننے کے بعد مصروفیات بڑھیں تو پودوں کو دینے کے لیے وقت کم ہونے لگا۔ آخرکار ایک دن پوری چھت پر موجود پودوں کی میگا ڈیل کی اور سارے کیکٹس ایک اور شوقین کو فروخت کر دیے۔
وقت کچھ مزید گزرا تو حاجی امداد حسین سیاست چھوڑ کر دوبارہ کاروبار کی طرف متوجہ ہوئے۔ کپڑوں کا سارا کام آل اولاد پر چھوڑ کر انہوں نے اپنے شوق سے ہی رزق کمانے کا سوچا۔
اس مرتبہ پودے چھت پر جمع ہونے کے بجائے ایک نرسری میں اکٹھے ہوئے۔ شروع میں پرانے کیکٹس دوستوں سے کچھ پودے منگوائے، کچھ اپنے تعلقات کی بنا پر بیچنے کے لیے اکٹھے کیے اور پھر کچھ عرصے بعد باضابطہ طور پر تھائی لینڈ سے منگوانے بھی شروع کر دیے۔
تھائی لینڈ اس وقت قیمتی پودوں کی صنعت کا بادشاہ ہے۔ دنیا جہان کا نادر پودا ان لوگوں نے کہیں نہ کہیں سے منگوا لیا۔ مطلب ہر ممکن طریقے سے اس کی افزائش میں لگے رہتے ہیں۔ پاکستان میں موجود قیمتی پودوں کی اکثریت تھائی لینڈ ہی سے آتی ہے۔ آج کل حکومتی پابندیوں کی وجہ سے بڑ ے پیمانے پر یہ پودے منگوانا بھی ایک درد سر ہو چکا ہے۔
تو حاجی امداد حسین کی یہ نرسری کیکٹس کے حوالے سے پاکستان کی سب سے بڑی نرسریوں میں شمار ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں کسی بھی نسل کا کوئی کیکٹس اگر آپ کو چاہیے اور ان کے پاس نہیں بھی ہے تو یہ اس کا بندوبست کر دیں گے۔
کیکٹس کے پودے زیروفائٹ کہلاتے ہیں۔ زیروفائٹ ان پودوں کو کہا جاتا ہے جو پانی کی بہت کم مقدار سے اپنا گزارا چلا لیتے ہیں اور ان کی جڑوں یا پتوں میں یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ جہاں ذرا سا بھی پانی ملے، جذب کر لیں۔ یہ پودے صحراوں، خشک پہاڑوں، ویرانوں، قبرستانوں یا کسی بھی شدید بنجر جگہ پر پائے جاتے ہیں۔
کیکٹس، اگاوے، ایڈینیم، ہاورتھیا، ایلو، یوفوربیا، سنےشیو، پیچی پوڈیم، ڈائکیا، یوکا، ٹیلینڈسیا، برومی لیاڈ، سینسویریا، بلب اور کاڈیکس رکھنے والے پودے اور ایسے تمام پودے جو دیکھنے میں بالکل انجان ہوں، بے ڈھبے ہوں، وہ اکثر زیروفائٹ ہی ہوتے ہیں۔ یہ تمام پودے اس نرسری پر پائے جاتے ہیں۔
جیسے جیسے موسم بدلتا ہے، رت گدرائی جاتی ہے، ویسے ویسے ان پودوں کے اہل جنوں جوش میں آتے جاتے ہیں۔ سرد موسم میں تو شوقین لوگوں کو صرف پودے بچانے کی فکر ہوتی ہے جو بہار کے آتے آتے نئی گروتھ دیکھنے کی خواہش میں بدلنے لگتی ہے۔ جیسے ہی پودوں میں چھوٹی چھوٹی کونپلیں نکلنا شروع ہوتی ہیں تو مالک شانت ہو جاتے ہیں کہ پودا بچ گیا اب کے سال بھی۔
حاجی امداد اس کاروبار میں ہر سال کئی پودوں کا نقصان بھی اٹھاتے ہیں۔ جہاں شوق کا دخل ہو وہاں نفع نقصان کی بجائے بس جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ وہی جذبہ جو اس نرسری میں ہمیں نظر آیا۔