بجلی کی فراہمی پورے پاکستان، خصوصاً بلوچستان میں ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہا ہے اور صوبے کے بیشتر علاقوں میں پورے دن اور رات میں محض چند گھنٹوں کے لیے ہی برقی ترسیل ممکن ہو پاتی ہے۔
پاکستان کے اس جنوبی صوبے کے ضلع زیارت کی تحصیل سنجاوی اغبرگ میں 1995 میں بجلی كے تاریں بچھائی گئیں تھیں۔
تاہم گاؤں اغبرگ كے رہائشیوں كے مطابق ان لائنوں میں آخری بار 2015 میں بجلی آئی تھی اور تقریباً نو سال گزرنے كے بعد ابھی تک علاقے میں بجلی آتی ہے نہ بجلی كا بل۔
لیکن اغبرگ كے رہائشیوں نے بجلی كے متبادل راستے ڈھونڈنے میں دل و جان لگائے، جس كے باعث انہیں پورا سال بغیر كسی ركاوٹ كے 24 گھنٹے بلامعاوضہ بجلی دستیاب ہے۔
گاؤں كا دار و مدار زراعت اور باغبانی پر ہے اور نزدیک ہی واقع پہاڑی سے قدرتی طور پر آنے والے پانی سے یہاں كے باغات تک پانی آسانی سے میسر ہے اور بجلی کا مسئلہ بھی اسی سے حل کیا گیا ہے۔
مقامی رہائشی مولوی عبیدالرحمن نے بتایا كہ دو سال قبل جب گاؤں والے شمسی توانائی کے سولر پینلز كے بار بار ٹوٹنے اور بیٹریوں سے تنگ آچكے تھے، خیبر پختونخوا كے علاقہ سوات سے آئے ہوئے ایک مہمان نے پانی سے بجلی بنانے کا مشورہ دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر پن بجلی بنانے کے ٹیوٹوریلز دیکھنا شروع کیے اور کچھ دن بعد پن بجلی کا پلانٹ لگایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق: ’تقریباً 18 ماہ پہلے ہمارا یہ منصوبہ کامیاب ہونے کے بعد ہمیں بجلی ملنے لگی۔ اس پلانٹ میں لگا سامان ہم نے قریب ہی واقع لورالائی شہر کے بازار سے لیا اور تقریباً پونے دو لاکھ روپے میں سارا کا سارا سامان آ گیا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اغبرگ میں لگائے گئے چھوٹے پلانٹ سے تقریباً تین سو واٹ سے زیادہ بجلی میسر ہوتی ہے، جس سے پانچ گھروں کے علاوہ گاؤں کی مسجد کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔‘
عبیدالرحمن کا کہنا تھا: ’دو سال قبل اور ہماری آج کی زندگی میں بہت مثبت فرق ہے۔ اب ہمیں وہ سہولیات میسر ہیں، جن کا کسی گاؤں میں تصور کرنا ممکن نہیں۔
’بجلی کی وجہ سب سے ہمارے بچے اپنے کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ پر گھر بیٹھے پڑھ رہے ہیں جب کہ گھروں میں فریج، استری، پانی کی موٹر اور گرمیوں میں پنکھوں کی سہولت بھی میسر ہے۔‘