میانمار میں ہفتے کو ’آرمڈ فورسز ڈے‘ منانے والی فوج نے مبینہ طور پر ایک ہی روز کے دوران 91 افراد کو ہلاک کر دیا۔
یکم فروری کو ہونے والی فوجی بغاوت کے کے بعد سرکاری فوج نے جموریت پسند رہنما آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کو بے دخل کردیا تھا جس کے بعد سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں اور ہڑتالوں کا سلسلہ جاری ہے۔
آن لائن نیوز ایجنسی ’میانمار ناؤ‘ کی جانب سے کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا کہ ملک کے 40 مختلف علاقوں میں فوج نے ہفتے کی سہ پہر تک کم از کم 91 مزید شہریوں کو ہلاک کر دیا۔
BREAKING - Our tally shows that as of 1630 Myanmar time, 91 civilians in 40 towns across #Myanmar have been killed today (Mar 27) by the coup regime’s armed forces. #WhatsHappeningInMaynmar pic.twitter.com/P5PNAxO7vX
— Myanmar Now (@Myanmar_Now_Eng) March 27, 2021
ینگون میں کام کرنے والے ایک آزاد محقق نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہفتے کو فوجی کریک ڈاؤن دو درجن سے زیادہ شہروں اور قصبوں تک پھیل گیا اور سنیچر فوجی بغاوت کے بعد شہریوں کی ہلاکتوں کے لحاظ سے بدترین دن ہے۔
میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف بڑھتے ہوئے احتجاج کے بعد ہلاکتوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
ہفتے کو ہی نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے لیے ڈپٹی ڈائریکٹر فل رابرٹسن نے کہا: ’آج کا دن میانمار کے عوام کے لیے مصائب اور سوگ کا دن ہے جنہوں نے فوج کے تکبر اور اقتدار کے لیے ان کے لالچ کے باعث بار بار قیمت ادا کی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’میانمار کی جدید تاریخ کے اس بڑے سانحے کی ذمہ دار طاقت ور فوج ہے جنہوں نے انسانی حقوق کی پامالی کی، ملکی معیشت میں لوٹ مار کی اور اس ملک کو مستقل خانہ جنگی کی جانب دھکیلا ہے جس کے خاتمے کی کوئی علامت نظر نہیں آ رہی ہے۔ ہم بین الاقوامی عدالتوں میں فوج کے کمانڈروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا مطالبہ کریں گے۔‘
سیاسی قیدیوں کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم کے نے جمعے تک بغاوت کے بعد کریک ڈاؤن میں 328 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔
اس سے قبل ایک روز میں سب سے زیادہ ہلاکتیں 14 مارچ کو ریکارڈ کی گئیں جب ایک ہی دن کم از کم 74 افراد فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’آرمڈ فورسز ڈے‘ کے موقع پر فوجی حکومت کے سربراہ اور سینیئر جنرل من آنگ ہیلنگ نے اپنی تقریر میں براہ راست احتجاج تحریک کا حوالہ نہیں دیا تاہم انہوں نے کہا کہ ’دہشت گردی‘ سے ریاستی سکون اور سماجی تحفظ کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور اسے ناقابل قبول قرار دیا۔
دوسری جانب مظاہرین نے اس دن کو ’یوم مزاحمت‘ سے تعبیر کرتے ہوئے دھمکی دی کہ وہ فوجی بغاوت کے خلاف زیادہ سے زیادہ مظاہروں کے ذریعے اپنے احتجاج کو دوگنا کریں گے۔
سرکاری ٹیلی ویژن ایم آر ٹی وی نے جمعے کی رات ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں نوجوان مظاہرین پر زور دیا گیا کہ وہ مظاہروں سے دور رہیں ورنہ ان کو سر یا پیٹھ میں گولی لگنے کے خطرے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اعلامیے میں مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والوں سے سبق سیکھنے کی بات بھی کی گئی۔
اس انتباہ کو وسیع پیمانے پر ایک دھمکی کے طور پر لیا گیا کیونکہ مظاہرین میں ہلاکتوں کی ایک بڑی تعداد کے سر پر گولی مار دی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں جان بوجھ کر ہلاک کیا گیا ہے۔