کراچی کے علاقے گزری کے قلندری گراؤنڈ میں چند نوجوان رکشا پر لکڑیاں لے کر پہنچے اور زمین میں گڑھا کھودنا شروع کیا۔
چند لحمے بعد ایک پنڈت نے گڑھے پر پہلے پانی چھڑکا اور بعد میں چاول، دالیں اور دیگر اناج چھڑک کر ایک مٹکی میں ناریل رکھ کر ایک موٹی لکڑی کا ستون بنایا۔ بعد میں اس ستون کے چاروں طرف لکڑیاں رکھ کر ہولی کا دھن تیار کرلیا۔
شام ڈھلتے ہی بڑی تعداد میں خواتین، بچے، نوجوان اور حالیہ دنوں میں شادی کرنے والے جوڑے پہنچ گئے، جس کے بعد ہولی کے دھن کو جلایا گیا، نئے شادی شدہ جوڑے اور دیگر خواتین آگ کے چاروں طرف پھیرے لینے لگے۔
یہ مناظر تھے اتوار کے جب ملک کے دیگر شہروں کی طرح کراچی میں بھی ہندوؤں کا مذہبی تہوار منایا گیا۔
گزری میں ہندو کاٹھیاواڑ، گجراتی اور دیگر زبان بولنے والے ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔
ہندو کاٹھیاواڑ کمیونٹی کے رہنما راجہ چوہان کے مطابق قلندری گراؤنڈ مرکزی مقام پر ہونے کے وجہ سے یہاں ہر سال ہولی جلانے کی رسم ادا کی جاتی ہے۔
عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ ہولی کا مطلب ایک دوسرے پر رنگ ڈالنا ہوتا ہے، مگر اصل میں یہ تہوار دو دن کا ہوتا ہے، جس کے پہلے دن شام کو ہولی جلائی جاتی ہے اور دوسرے دن رنگوں کا تہوار منایا جاتا ہے۔
ہولی کی تاریخ کے متعلق بتاتے ہوئے، راجہ چوہان نے بتایا: ’ہزاروں سال پہلے ہرن یکشپو نامی راجہ کی عبادت سے خوش ہو کر ہندو دیوتاؤں نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ امر ہوجائیں گے اور انہیں کوئی انسان یا حیوان، دن کو نہ رات کو، زمین پر نہ پانی یا ہوا میں، نہ وہ گھر کے اندر نہ باہر مار سکے گا۔‘
راجہ چوہان کے مطابق ’اس طاقت کے بعد راجہ نے غرور میں آکر خود کو بھگوان سمجھ کر رعایا کو کہا کہ وہ ان کی پوجا کریں، مگر ان کے بیٹے پرہلادا نے اپنے باپ کی عبادت سے انکار کر دیا، جس پر راجہ نے اپنے بیٹے کو مارنے کی کئی بار کوشش کی اور آخر کار اپنی بہن ہولیکا کو حکم دیا کہ پرہلادا کو جلا کر ہلاک کر دے۔ ہولیکا کے پاس ایک طاقت تھی جس سے وہ آگ سے محفوظ رہتی تھی، اس لیے وہ پرہلادا کو اپنے ساتھ لے کر آگ میں کود گئی۔ مگر قدرتی طور پر ہولیکا جل گئی اور پرہلاد بچ گئے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’بعد میں ہندوؤں کے دیوتا وشنو نے نرسنگھ (آدھا انسان آدھا شیر) کا روپ دھار کر شام کے وقت، جب نہ دن تھا نہ رات، اپنی رانوں پر رکھ کر یعنی نہ زمین پر نہ پانی میں اور نہ ہوا میں، گھر کی دہلیز پر یعنی نہ گھر کے اندر نہ باہر، راجہ کا گلا گھونٹ دیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’اس دن کی یاد میں ہولی کا تہوار منایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پھاگن کی چودھویں رات کو منایا جانے والا یہ تہوار سردیوں کے موسم کے خاتمے اور بہار کی آغاز کا تہوار ہے، جب دہان کی فصل کٹتی ہے اور کسان خوش ہوتا ہے۔‘
قلندری گراؤنڈ میں منائی جانے والے پروگرام کی انتظامی کمیٹی کے رکن مکیش دتاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’اس گراؤنڈ میں ہم 50 سالوں سے ہولی کا تہوار مناتے ہیں، جس میں پولیس، رینجرز کی مکمل سیکورٹی ہوتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے مسلمان بھائیوں کا ہندو برادری کے ساتھ کو بیان نہیں کرسکتے، ’ہمیں نہیں رہنا بھارت یا کسی اور ملک میں۔ ہم بہت خوش ہیں۔‘