پاکستان کے سابق قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں حکام نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی علی وزیر اور ان کے 12 ساتھیوں پر عوام کو بغاوت پر اکسانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ضلعی پولیس افسر کفایت اللہ خان کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ علی وزیر اور ساتھیوں نے اس سال یکم مئی کو شمالی وزیرستان کے مقام شیواہ پر جلسۂ عام میں ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف نعرے لگائے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس نعرہ بازی سے ملکی سلامتی کے لیے خطرات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔
تاہم انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے علی وزیر نے اپنے ردعمل میں کہا کہ یہ ان کے خلاف نہیں ریاست کے خلاف ایف آئی آر ہے۔ ’شیواہ کا جلسہ وہاں تعمیر کئے جانے والے ڈیم سے متعلق تھا جس میں ہم نے مقامی لوگوں کی شکایات ریاست تک پہنچائی تھیں۔ جو ان لوگوں کا احساس محرومی ہے اس کا ذکر کیا تھا۔ نہ اس ڈیم کی زد میں آنے والے مکانات کا کوئی سروے ہوا ہے۔ جن کے مکان ڈوب جائیں گے انہیں کیا ملے گا۔ یہ باتیں میں نے کی تھیں۔‘
ایف آئی آر ڈی ایس پی یا ایس ایچ او کے بجائے ڈی پی او نے درج کی ہے۔
اس اقدام سے چند روز قبل پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک اخباری کانفرنس میں واضح طور پر کہا تھا کہ پی ٹی ایم کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’پی ٹی ایم نے جتنی آزادی لینی تھی لے لی، اب بس اور نہیں۔‘
اس حکومتی اقدام کے بارے میں ابھی تک پی ٹی ایم کا ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
تاہم یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ علی وزیر اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہو۔ اس سے قبل بنوں، صوابی، شمالی وزیرستان، ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک ایک جبکہ کراچی میں بھی چار ایف آئی آر درج ہوچکی ہیں۔