لاڑکانہ جنکشن سے 20 ریل گاڑیاں گزرتیں تھیں، 30 قلی کام کرتے تھے، اب ایک لوکل ریل گاڑی اور آخری قلی ہی بچا ہے۔
74 سالہ بادل علی چشمے کے بغیر دیکھ نہیں سکتے، ان کی ٹانگ میں تکلیف ہے، وہ سخت محنت مزدوری کے قابل نہیں رہے مگر پھر بھی ان کا 50 برس گزرنے کے باوجود لاڑکانہ ریلوے سٹیشن نے تعلق نہیں ٹوٹا۔
وہ 30 میں سے آخری قلی رہ گیے ہیں اور روزانہ مزدوری کے لیے سٹیشن آتے ہیں۔
بادل نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب میں 15 برس کی عمر میں کمانے کے لیے سٹیشن پر آیا تھا تو اس وقت کم سے کم 20 ریل گاڑیوں کا روزانہ آنا جانا ہوتا تھا، قلیوں کا کام ٹھیکے پر تھا، ہماری اجرت ریلوے کے عام ملازمین کی تنخواہوں سے زیادہ ہوتی تھی، اب گاڑیاں ہیں، نہ ہی مزدوری۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’کراچی سے پشاور جانے والی خوشحال خان خٹک ایکسپریس صبح و شام چار گاڑیاں، کوئٹہ سے کراچی جانی والی بولان میل چار گاڑیاں، چار گاڑیاں لاڑکانہ سے قمبر، چار ریل کاریں اور تین چار لوکل گاڑیاں بھی چلتیں تھیں۔ اب صرف ایک روہڑی سے موئن جو دڑو پیسنجر گاڑی آتی ہے۔‘
’ریل گاڑیاں بند ہونے کے بعد کچھ قلی یہاں سے چلے گئے، کچھ مر گئے، کچھ نے دوسرے کام شروع کردیے، میں اب کوئی اور کام نہیں کر سکتا۔ سٹیشن پر آتا ہوں، ایک گاڑی سے کبھی مزدوری لگتی ہے کبھی نہیں۔ ریلوے سٹاف کے چھوٹے موٹے کام کرتا ہوں، سٹیشن ماسٹر اور دیگر سٹاف میرا خیال رکھتے ہیں، بس ٹائم پاس ہو جاتا ہے۔‘
بادل علی نے مزید بتایا کہ ’ہم قلیوں کے علاوہ یہاں ڈرائی پورٹ پر بھی سینکڑوں مزدور کام کرتے تھے وہ کام بھی برسوں پہلے ختم ہو چکا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لاڑکانہ جنکشن پر سٹیشن ماسٹرکے ساتھ 28 ملازمین اب بھی موجود ہیں۔
سٹیشن ماسٹر ایاز حسین بتاتے ہیں کہ ’ہمارے پاس موجود ریکارڈ کے مطابق 1990 میں 12 گاڑیاں چلتیں تھیں، کووڈ 19 سے پہلے بھی یہاں مزید تین گاڑیاں دستیاب تھیں جو ابھی تک بحال نہیں ہوئیں۔‘
لاڑکانہ ریلوے سٹیشن برطانوی راج کے دوران 1871 میں انڈس ویلی سٹیٹ ریلوے کے ملتان- کوٹڑی ٹریک منصوبے کے تحت بنا تھا جبکہ 1924 میں لاڑکانہ کو قمبر، شہداد کوٹ اور جیکب آباد اضلاع سے جوڑنے کے لیے لاڑکانہ- جیکب آباد لائٹ ریلوے لائن بنائے گئی۔
اب جیسے انڈس ویلی سٹیٹ ریلوے اور لاڑکانہ-جیکب آباد لائٹ ریلوے ختم ہوچکیں ہیں ایسے ہی پاکستان ریلوے بھی دن بدن ’اپنی تباہی‘ کے آخری مراحل سے گزر رہی ہے اور جس کو یہ ’تباہی‘ اپنی آنکھوں سے دیکھنی ہو وہ ایک بار کوٹڑی سے روہڑی تک چلنے والی واحد موئن جو دڑو پیسنجر ٹرین پر سفر کرکے دیکھ لے۔
بادل علی ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’1970 کی دہائی ہیں روڈ ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر تھی، سب لوگ ریل گاڑیوں میں سفر کرتے تھے۔ کئی مال گاڑیاں بھی چلتیں تھیں، سٹیشن پر کھانے، چائے، مٹھائی کی دوکانیں ہوتی تھیں، ہزاروں لوگ سٹیشں سے جڑے تھے وہ سب کچھ ختم ہو گیا، مجھے ڈر ہے کہ دیگر کی طرح یہ سٹیشن بھی بند نہ ہو جائے اور دعا کرتا ہوں کہ اس سے پہلے موت آجائے ورنہ میں کہاں جاؤں گا۔‘