یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
میرے سیاسی پیغامات اور کالم پر آپ کی رائے جان کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بات آپ سمجھے کہ نہیں اور آپ کے اختلاف کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے بہت ضروری ہے۔
سب سے زیادہ جو سوال کیا جاتا ہے وہ یہ کہ کیا پاکستان واقعی بدل سکتا ہے؟ کیا ہم کرپشن، اقربا پروری، وسائل کے ضیاع اور شخصی مفادات سے اوپر اٹھ سکتے ہیں؟ آج ان سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔
پاکستان دنیا کا پہلا یا آخری ملک نہیں جسے مسائل کا سامنا ہے۔ اگر آپ تاریخ پر نظر ڈالیں تو بہت سے ممالک ہم سے بدتر صورت حال میں تھے مگر جب جاگے تو اپنے معاشرے کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوئے۔
ہمیں ان تمام ممالک کے تجربات سے سیکھنا چاہیے اور یہ تاریخی ریکارڈ ہمارے لیے مشعل راہ بن سکتا ہے۔
تبدیلی کا آغاز ہمیشہ سیاست دانوں سے ہوتا ہے۔ چند سیاست دان اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے نظام میں تبدیلی ضروری ہے۔
جیسے جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا یا چین میں ماؤ۔ پھر یہ سیاست دان مل کر ایک اصلاحی تحریک کا آغاز کرتے ہیں۔ پاکستان اس وقت اسی مرحلے سے گزر رہا ہے کہ کچھ سیاست دانوں نے اعلان کر دیا ہے کہ نظام کی تبدیلی ضروری ہے۔
دانش وروں کا کردار اس مرحلے میں انتہائی اہم ہے۔ یہ سیاست دانوں کو نظریاتی سوالات کے جوابات سمجھنے میں مدد کرتے ہیں اور راستے میں آنے والی مشکلات کے حل بھی تلاش کرتے ہیں۔
پاکستان کے کچھ دانش وروں نے یہ کام شروع کر دیا ہے۔ دانش وروں اور سیاست دانوں کے درمیان یہ ربط تبدیلی لانے کے لیے پہلا قدم ہے۔
یہ ایک نازک مرحلہ ہے۔ سیاست دانوں پر دباؤ ہوگا کہ وہ مفاہمت کر لیں اور اسی ناکارہ نظام میں کچھ حصہ لے لیں جبکہ دانش وروں پر غداری اور ملک دشمنی کے الزامات لگیں گے۔ اگر دونوں ثابت قدم رہے تو یہ مشکل مرحلہ طے ہو جائے گا۔
استادوں کا کام اب شروع ہوا ہے۔ انہیں نوجوانوں کو اچھے اخلاق، کردار اور معاشرے کی تعمیر میں ان کی توانائیوں کی ضرورت کو اجاگر کرنا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سوشل میڈیا پر بہت سے پروفیسر اور استاد نظر آتے ہیں جو ان باتوں پر بڑے پراثر انداز میں ان سے مکالمے کر رہے ہیں۔
مگر نوجوانوں میں اس وقت غصہ بہت ہے جس کی وجہ سے وہ جعلی تحریکوں اور شدت پسند لوگوں کی باتوں میں آجاتے ہیں۔ ان استادوں کو اپنا نیٹ ورک بڑھانا چاہیے اور ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنا چاہیے۔
فوج اور اسٹیبلشمنٹ کا نظام پر قبضہ پچھلی سات دھائیوں سے جاری ہے۔ وہ یہ قبضہ چھوڑنے کو ابھی تک تیار نہیں۔
مگر حالات بدل رہے ہیں میانمار کی طرف دیکھیں تقریباً 300 لوگ جان دے چکے ہیں مگر عوام فوجی اقتدار پر قبضہ کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔
جنرل قمر باجوہ نے اپنا گھر ٹھیک کرنے کی بات کی ہے۔ پچھلے تین سال کو دیکھ کر لگتا ہے گھر کو ٹھیک نہیں کر رہے۔ انہیں اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔
قوم کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ کام کو سنجیدگی سے کرنے اور نئی ایجادات میں ہی ہماری ترقی کا راز ہے۔
پاکستانی مزدور کو اس کے حقوق ضرور ملنے چاہییں مگر مزدور اور صنعت کار دونوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہماری صنعتی پیداوار دوسرے ملکوں کے مقابلے میں کم ہے اسی وجہ سے ہماری مصنوعات دنیا میں کم کوالٹی اور مہنگی ہیں۔
اسی وجہ سے ہمیں برآمدات کو بڑھانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ نظام اور رویہ دونوں کی تبدیلی ضروری ہے۔ اگر دوسری قومیں کر سکتی ہیں تو ہم بھی کر سکتے ہیں۔
یہ تمام مراحل ہم اسی وقت طے کر سکتے ہیں جب سیاست دان رہنما بنیں۔ نظریے کو ہاتھ میں تھام کر رکھیں اور شخصی مفادات کو پس پشت ڈال دیں۔
انتظار ہے کہ کب ہم قومی سیاسی مذاکرات کی میز پر پہنچیں گے جہاں نئے نظام کے خدوخال پر بات ہوگی۔ قوم تیار ہے مگر سیاست دانوں کو کچھ وقت اور چاہیے۔